top of page

نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے

Naat Academy Naat Lyrics Naat Channel-Naat-Lyrics-Islamic-Poetry-Naat-Education-Sufism.png

سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی

سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نور اللہ مرقدہٗ

سلسلہ (1)

محمد حسین مشاہدرضوی

تاريخِ ہند سے دلچسپي ركھنے والا ہرشخص جانتا ہے کہ جنگ آزادی 1857ءميں علماے اہلِ سنت اور مشايخِ طريقت كا نہايت بنيادي كردار رہاہے۔ بلكہ اگر یہ كہا جائے تو كچھ مبالغہ نہ ہوگا كہ شمالی ہند ميں انگريزوں كے خلاف مسلم راے عامہ ہموار كرنے اور پورے خطے ميں انقلاب كی فضا برپا كرنے كا بنيادی كام انھيں كی قيادت اور سربراہی ميں ہوا۔ ان مجاہدين ميں علامہ فضلِ حق خير آبادی(م1278ھ)، مفتی صدر الدين خاں آزرده دہلوی (م1285ء)،مولانا سيد احمد الله شاه مدراسی (م1274ھ)، مفتی عنايت احمد كاكوروی (م1279ھ)، مولانا رحمت الله كيرانوی (1308ھ)، مولانا فيض احمد بدايونی، مولانا ڈاكٹر وزير خاں اكبر آبادی( م1289ھ)، مولانا وہاج الدين مراد آبادی (م1274ھ)، مولانا رضا علی خاں بريلوی( م1286ھ)، مولانا امام بخش صہبائی دہلوی (م1273ھ)، حكيم سعيد الله قادری( 1325ھ) وغيرہم كے انقلابی كارنامے آب زر سے لكھنے كے قابل ہيں۔

ان اعاظم علماے حق میں شہيد ِ جنگ ِآزادی سلطانِ نعت گویاں حضرت مولانا مفتی سيد كفايت علی كافی مراد آبادی عليہ الرحمۃ والرضوان كا نام نماياں نظر آتا ہے۔آپ كا نسبی تعلق نگينہ، ضلع بجنور ،يو پی كے ايك معزز خانوادهٔ سادات سے تھا۔ آپ نے مراد آباد كو اپنا وطن بنا ليا تھا۔ علماے بدايوں و بريلی سے علم حاصل كيا۔ بارهويں صدی كے مجدد حضرت شاه غلام علی نقش بندی دہلوی كے خليفہ اور شاه عبد العزيز محدث دہلوی (م 1239ھ/ 1824ء) كے شاگرد رشيد حضرت شاه ابو سعيد مجددی رام پوری ( (م1250ھ )سے علمِ حديث كی تكميل كی۔علمِ طب مولانا رحمٰن علی مصنف تذكرهٔ علماے ہند كے والد مولانا حكيم شير علی قادری سے حاصل كيا۔ مولانا كافیؔ پر اپنے استاذ و مربی حضرت شاه ابو سعيد مجددی قدس سرہٗ كی شخصيت كا گہرا اثر تھا۔ اسی وجہ سے آپ كو علمِ حديث اور تصوف سے بے حد شغف تھا، اور رسولِ اكرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم كی سيرت طيبہ سے عشق كی حد تك لگاو تھا۔آپ ایک عظیم المرتبت اور فقید المثال نعت گوشاعر بھی تھے۔ شيخ امام بخش ناسخؔ لكھنوی كے شاگرد شيخ مہدی علی خاں ذكی ؔمراد آبادي( م1281ھ)سے شعر و شاعری ميں اصلاح ليتے تھے۔تقدیسی شاعری میں آپ کا مقام و مرتبہ نہایت بلند و بالا ہے ۔ آپ کے کئی مجموعے منثور ومنظوم منظر عام پر آچکے ہیں جن میں ترجمہ شمائل ترمذی؛منظوم ،مجموعہ چہل حدیث؛ منظوم، خیابانِ فردوس ، بہارِ خلد، نسیمِ جنت ، مولودِ بہار، جذبۂ عشق ،دیوانِ کافی ،تجملِ دربارِ رحمت وغیرہ شامل ہیں۔ آپ جس قدر بلندپایہ اور مایۂ ناز نعت گو گزرے ہیں اُس لحاظ سے آپ کا ذکراِس حیثیت سے نعتیہ ادب کی تاریخ میں خال خال ہی ملتا ہے ممتاز محققِ نعت راجا رشید محمودنے اس ضمن میں یوں اظہارِ تأسف کیا ہے:

’’پروفیسر سید یونس شا ہ کی ’تذکرۂ نعت گویانِ اردو‘ اور ڈاکٹر ریاض مجید کے پی ایچ ڈی کے مقالے ’اردو میں نعت گوئی‘ کے سوا ، نعت پر لکھی جانے والی کتابوں اور مقالات و مضامین میں اُن کا ذکر نہیں ملتا۔ آج تک جتنے انتخابِ نعت شائع ہوئے ان میں سے صرف نقوش کے رسولﷺ نمبر میں اور میرے ضخیم انتخاب ’نعت کائنات‘میں ان کی ایک نعت ہے۔ شفیق بریلوی کے مرتبہ ’ارمغانِ نعت ‘میں ان کی ایک نعت نما غزل یا غزل نما نعت ہے۔

1857 ءکی جنگِ آزادی کے حوالے سے جہاں جہاں کافیؔ کا ذکر آیا ہے ، وہاں بھی اگر کسی نے ان کی شاعری کی بات کی ہے تو ’’کوئی گُل باقی رہے گا ، نَے چمن رہ جائے گا‘‘ کے یہی چھے یا اس سے کم اشعار درج کیے ہیں۔ اس طرح اس ایک غزل کے علاوہ ان کی کوئی نعت لوگوں کے سامنے نہیں ہے۔جب کہ کفایت علی کافیؔ علیہ الرحمہ کا دیوانِ کافی نعت پرمشتمل ہے، ان کی مثنویاں ’’خیابانِ فردوس‘‘ اور ’’نسیمِ جنت‘‘ بھی نعتیہ ہیں۔ شمائل ترمذی کا منظوم اردو ترجمہ ’’بہارِ خلد‘‘ نعتیہ ہے۔ ’’مولودِ بہاریہ‘‘ ،’’ حلیہ شریف ‘‘،’’ مثنوی تجملِ دربارِ نبی کریم ﷺ ‘‘بھی نعتیہ ہیں۔‘‘


سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نور اللہ مرقدہٗ

سلسلہ (2)

محمد حسین مشاہدرضوی

مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی كی شاعری میں شرعی احكام كی بھر پور پاسداری نظر آتی ہے۔آپ کی زبان نہایت صاف ، شستہ اور اندازِ بیان نہایت مؤثر ہے۔ آپ کی تقدیسی شاعری کے علوے مرتبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ نعتیہ افق پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکنے دمکنے والے امام نعت گویاں امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ملفوظات میں کئی مقامات پر عمدہ الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ اس محبت اور روحانی تعلق کی اصل وجہ عشق رسالت ﷺمیں مماثلت اور انگریز وں سے شدیدمخالفت ہی ہوسکتی ہے۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ آپ کے کلامِ بلاغت نظام کو شوق و ذوق سے سماعت کیا کرتےتھے یہی نہیں بلکہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے مفتی سیدکفایت علی کافیؔ کی طرزوں کے اتباع میں ان کی زمینوں پر مشتمل کئی کلام بھی قلم بند کیے ہیں ۔ الملفوظ ميں ہے:

’’سِوا دو كے كلام كے كسی كا كلام ميں قصداً نہيں سنتا، مولانا كافیؔ مراد آبادی اور حسنؔ مياں مرحوم ؛يعنی استاذِ زمن مولانا حسن رضا بريلوی ان دونوں كا كلام اول سے آخر تك شريعت كے دائرے ميں ہے ۔ البتہ مولانا كافی ؔ كے يہاں لفظ ’’راعنا‘‘ كا اطلاق جا بہ جا ہے، اور يہ شرعاً محض ناروا و بے جا ہے۔ مولانا كو اس پر اطلاع نہ ہوئی، ورنہ ضرور احتراز فرماتے۔ غرض ہندی نعت گويوں ميں ان دو كا كلام ايسا ہے، باقی اكثر ديكھا گيا كہ قدم ڈگمگا جاتا ہے، اور حقيقتاً نعت شريف لكھنا نہايت مشكل ہے، جس كو لوگ آسان سمجھتے ہيں، اس ميں تلوار كی دھار پر چلنا ہے، اگر بڑھتا ہے تو الوہيت ميں پہنچ جاتا ہے، اور اگر كمی كرتا ہے تو تنقيص ہوتی ہے۔ البتہ حمد آسان ہے كہ اس ميں راستہ صاف ہے، جتنا چاہے بڑھ سكتا ہے۔ غرض حمد ميں ايك جانب اصلابالكل حد نہيں، اور نعت شريف ميں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔‘‘

(الملفوظ، مرتبہ:مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا نوری بريلوی،ج:2، ص:39، مطبوعہ رضا اكيڈمی ممبئی1427ھ 2006ء، ملخصاً)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی بريلوی شہيد ِحريت حضرت مفتی سید کفایت علی كافیؔ علیہ الرحمہ كی نعتيہ شاعری سے اس قدر متاثر تھے كہ انھيں ’’سلطانِ نعت گوياں ‘‘اور اپنے آپ كو ان كا ’’وزير اعظم‘‘ قرار ديتے ہوئے تحديث ِنعمت كے طور پر لكھتے ہيں:

مہكا ہے مری بوےدہن سے عالم

ياں نغمۂ شيريں نہيں تلخی سے بہم

كافیؔ ’’سلطانِ نعت گوياں‘‘ ہے رضاؔ

ان شاءالله ميں وزيرِ اعظم

-----

ایک دوسرے قطعہ میں یوں عرض گزار ہیں :

پرواز میں جب مدحتِ شہ میں آؤں

تا عرش پروازِ فکرِ رسا میں جاؤں

مضمون کی بندش تو میسر ہے رضاؔ

کافیؔ کا دردِ دل کہاں سے لاؤں




سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نور اللہ مرقدہٗ

سلسلہ (3)

محمد حسین مشاہدرضوی


مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی کے دل میں نبیِ مکرم ﷺ سے ایسی والہانہ عشق و محبت رچی بسی تھی کہ جب آپ کو پھانسی کا حکم سنایا گیاتو مسرور و وارفتہ تھے۔ قتل گاہ کو جاتے ہوئے زبان پر یہ کلام جاری تھا، جس میں سرکار دوعالم ﷺ کا ذکر مبارک کرتے ہوئے نعت کی اہمیت اور عظمت کا یوں اظہار کیا ہے کہ دنیا جہان کی تمام تر باتیں ختم ہوجائیں گی لیکن نعت ِ رسول ﷺ حشرتک قائم و دائم رہے گی ،اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اور پنجتن کی محبت کا ذکر بھی کیا ہے، نیز اس کلام میں دُرود شریف کی برکتوں کا ذکر بھی کیا :

کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جائے گا

پر رسول اللہ کا دینِ حَسَن رہ جائے گا

نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں

حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا

ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا

بلبلیں اُڑ جائیں گی، سوٗنا چمن رہ جائے گا

اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو

اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا

جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود

آگ سے محفوظ اس کا، تن بدن رہ جائے گا

سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ ولیکن حشر تک

نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا

مفتی سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی اتنے بڑے عاشقِ رسول تھے کہ تختۂ دار بھی آتشِ عشق سرد نہ کرسکا۔ مذکورہ اشعار آپ کی رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے والہانہ محبت و عقیدت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مردِ حق آگاہ مولانا کافیؔ نے گویا بزبانِ حال یہ پیغام دیا ہےکہ زندگی وہی ہے جو رسول مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم میں گزرے۔

عشقِ رسول ﷺان كی غذاے روح اور قلب كا سامانِ تسكين تھا۔ اور سچی بات تو يہ ہے كہ عشقِ رسول كے جذبات سے جب آپ كا دل مضطرب ہوتا اور فراقِ حبيب ان كی روح كا سكون و قرار چھين ليتاتو ان كے جذباتِ دروں نعتيہ اشعار كا روپ دھار ليتے اور ان كے نازك احساسات كے سرچشموں سے عشقِ نبوی ﷺسے لب ريز منظوم آبشار جاری ہو جاتے۔ ان كی نظر ميں نعت ِرسولﷺ سننا اور سنانا دونوں جہان كی سعادت مندی اور فيروز بختی كا سامان ہے، اور نعت ِمصطفیٰﷺميں اپنی زندگی كے گراں قدر اوقات صرف كرنے والا٫’’سعيد ِدو جہاں‘‘ہے۔ آپ خود کہتے ہيں:

ہے سعيدِ دوجہاں وه جو كوئی ليل و نہار

نعتِ اوصافِ رسول الله كا شاغل ہوا

بس آرزو یہی دلِ حسرت زده كی ہے

سنتا رہے شمائل و اوصافِ مصطفیٰ

اسی جذبۂ دروں اور سوداے عشق كی كرشمہ سازی تھی كہ آپ كا دل زيارتِ حرمين طيبين كے ليے تڑپتا مچلتا رہتاتھا۔ آپ كے ديوان ميں جا بہ جا زيارتِ ديارِ حبيب كا شوق اپنی جلوه سامانياں بكھيرتا نظر آتا ہے اور ان كا طائر ِتخيل حجازِ مقدس كی پاكيزه اور عطر بيز فضاؤ ں ميں مسلسل پرواز كے ساتھ اس تمنا كا برملا اظہار كرتا دکھائی دیتا ہے كہ كاش ان كے جسد ِخاكی كے بھی دن پھريں اور اسے بھی اس رشك ِجنت ، سرزمین كی آبلہ پائی نصيب ہو۔ الله تعالیٰ نے ان كی یہ تمناے شوق بھی پوری فرمائی اور 1841ءميں زيارتِ حرمين شريفين كا موقع عنايت فرمايا۔ آپ نے اس سفر كے متعلق ايك مثنوی بھی تحرير فرمائی جو ’’تجملِ دربارِ رحمت بار‘‘ كے عنوان سے منشی عبد الرحمٰن شاكرؔ ، مالك مطبع نظامی، كان پوركی كوشش اور اہتمام سے چھپ كر شائع ہوئی۔مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآدی علیہ الرحمہ کے دیوان سے چند متفرق اشعار نشانِ خاطر فرمائیں :

بیمار شفا پاتے ہیں اُس خاکِ شفا سے

بیمار ہوں میں اُس پاک مدینہ کی زمیں کا

مظہرِ رحمت مصدرِ رافت مخزنِ شفقت عین عنایت

ذاتِ محمد جانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

ہے وہ یکتاے عالمِ ایجاد

اُس کا ثانی کوئی ہوا ہی نہیں

شفیعِ روزِ محشر ہو قسیمِ حوضِ کوثر ہو

محیطِ مرحمت ہو مطلعِ انوارِ احساں ہو

سزاوارِ خطابِ رحمت للعالمیں ہو تم

بانگشتِ شہادت خاتمِ ختمِ رسولاں ہو

بہارِ خلد ہے روے محمد ﷺ

شميمِ جاں فزا بوے محمدﷺ

دلِ وحشي ہے زنجيريں تُڑاتا

بشوقِ يادِ گيسوے محمدﷺ



سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نور اللہ مرقدہٗ

سلسلہ (4)

محمد حسین مشاہدرضوی


سلطان نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی کے یہاں اکثریت کے ساتھ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے موضوعات کا گہرا رچاؤ ملتا ہے ۔ مولودِ سرکارِ دوعالم ﷺ کا منظوم بیانیہ مختلف النوع رنگ و آہنگ سے کافیؔ کے دیوان میں جابجا جگمگ جگمگ کررہا ہے ۔ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے موقع پر دنیامیں ہونے والے رونما ہونے والے واقعات کو بھی قلم بند کیا ہے جنھیں صنعت تلمیح کے ذیل میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

میلادِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء پر اظہارِ مسرت و انبساط کرنا یہ صرف باادب بانصیب لوگوں کا ہی کام ہے جنھیں اللہ رب العزت جل و علا کی طرف سے سعادت میسر ہوتی ہے وہی آقا کریم ﷺ کی میلاد پر خوشی مناتے ہیں اور یہ فرحت ایسی فرحت ہے کہ اس پر تمام فرحتیں بھی قربان کردی جائیں تو کم ہیں کیوں کہ آپ ہی باعث ِ تخلیق کائنات ہیں اور آپ ہی کےسبب اللہ رب العزت نے ہمیں دنیا جہان کی تمام خوشیاں نصیب فرمائیں :

باجلوۂ نورِ ضیا باشان اجلالِ ہدیٰ

پیدا ہوئے والا گہر حضرت محمد مصطفیٰ

ا س تہنیت کی دھوم تھی مشرق سے لے مغرب تلک

پیدا ہوئے کیا نامور حضرت محمد مصطفیٰ

طفیلِ سرورِ عالم ہوا سارا جہاں پیدا

زمین و آسماں پیدا مکیں پیدا مکاں پیدا

نہ ہوتا گر فروغِ نورِ پاکِ رحمتِ عالم

نہ ہوتی خلقتِ آدم نہ گلزارِ جناں پیدا

شہ ولادتِ خیرالوریٰ کی برکت سے

گریز کر گیا دنیا سے دن نحوست کا

ولادتِ نبوی کا جہاں میں ہے شہرہ

ظہورِ نور کا کون و مکاں میں ہے شہرہ

ہزار سال سے جلتی تھی آگ فارس میں

وہ سرد ہوگئی دیر و مکاں میں ہے شہرہ

بت پرستی مٹ گئی غالب ہوا دینِ متیں

جب سے ختم الانبیاء بدرالدجیٰ پیدا ہوئے

موضوعاتِ نعت میں ایک اہم موضوع معراجِ مصطفوی ﷺ بھی ہے ۔ یہ شہنشاہِ کون و مکان تاجدارِ عرب و عجم شب ِ اسریٰ کے دولھا ﷺ کا ایک امتیازی وصف اور منفرد معجزہ ہے۔ معراج کی شب مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر، اقصیٰ میں جملہ انبیاے کرام کی امامت ، ساتوں آسمانوں کی سیر، جنت و دوزخ کا مشاہدہ ، دیدارِ الٰہی ، قاب قوسین کی منزل تک رسائی، سرعرش پل میں جانا،پل میں واپس تشریف لانا اور دیگر واقعاتِ معراج کا بڑا خوب صورت بیان اور شعری اظہار اردو کی نعتیہ شاعری کا بے حد پسندیدہ عنوان ہے۔ کافیؔ جیسے عاشقِ صادق کے کلام میں معراج و اسریٰ کا بیان کچھ اس طرح نظر آتا ہے:

واہ کیا جلوۂ اعجاز تھا جاناآنا

شبِ اسریٰ میں عجب ناز تھا جاناآنا

دیکھ اس جلوۂ رفتار کو حیراں تھے ملک

حیرتِ دیدۂ پرواز تھا جانا آنا

ساعتِ چند میں دیکھو تو کہاں تک پہنچے

حق کے محبوب کا اک ناز تھا جانا آنا

شبِ اسریٰ میں ان کے قدموں سے

ہوگیا گلشنِ جناں روشن

کلیم اللہ کا معراج کوہِ طور پر ہووے

رسول اللہ کا معراج فرش عرشِ رحماں ہو



سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نور اللہ مرقدہٗ

سلسلہ (5)

محمد حسین مشاہدرضوی


سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی کے زرنگار قلم نے عقیدت و عقیدے کی ترجمانی کرتے ہوئے نبیِ مکرم ﷺ کے سراپا کا بھی بڑا خوب صورت شعری بیان کیا ہے۔ سراپا نگاری میں کافی ؔکا قلم نت نئے تلازمے اور علائم تلاش کرتا ہے ۔ تصویریت کا حسن اور منظر کشی کا جمال ایسا گہرا ہے کہ اشعار پڑھتے ہوئے قاری کے حواسِ خمسہ براہِ راست متاثر ہوتے ہیں جن میں مختلف پیکروں کی جلوہ گری دیدنی بھی ہے اور شنیدنی بھی، یوں تو کافیؔ کے یہاں سراپاے رسول ﷺ پر متعدد اشعار ملتے ہیں ذیل میں آپ کا سراپا نگاری پر مشتمل ایک بہترین اور عمدہ کلام نشانِ خاطر کریں :

سراپا وہ صل علیٰ آپ کا تھا

کہ ہر عضو حسنِ تجلی نما تھا

حبیبِ خدا کا جمالِ مکرم

سزاوارِ تحسینِ حمد و ثنا تھا

بہارِ لطافت میں بے مثل ثانی

گلِ بے خزاں عارضِ مصطفیٰ تھا

وہ صلِ علیٰ گندمی رنگ ان کا

کہ عارض رخِ عالمِ نور کا تھا

چمکتا تھا کیا نورِ حسنِ صباحت

فروغِ ملاحت دمکتا ہوا تھا

مزین تھا پیراہنِ اعتدالی

خوش اندام اندامِ خیرالوریٰ تھا

وہ جسمِ مبارک کی روشن سیاہی

کہ سرچشمۂ نور جس پر فدا تھا

وہ دندان و لب غیرتِ دُرِّ مکنوں

وہ حسنِ تبسم کا عالم نیا تھا

وہ بحرِ تبسم میں موجِ لطافت

کہ دریوزہ گر جس کا آبِ لقا تھا

وہ حسنِ ادا کس زباں سے ادا ہو

تبسم میں اُن کے جو حسنِ ادا تھا

کرے اُس شمائل کا کیا وصف کافیؔ

سراپا سہر خوبیوں سے بھرا تھا

نعت نبوی ﷺ كے مزیدكچھ اور اشعار ملاحظہ ہوں جن میں عقائد ِ اہل سنت کی ترجمانی کچھ اس طرح دکھائی دیتی ہے:

جس نے حضرت کا وسیلہ دوستو پیدا کیا

میں یہ کہتا ہوں کہ وہ دارالاماں میں آگیا

يا الٰہی حشر میں خير الوریٰ كا ساتھ ہو

رحمتِ عالم ، محمد مصطفیٰ كا ساتھ ہو

يا الٰہی ہے یہی دن رات ميری التجا

روزِ محشر، شافعِ روزِ جزا كا ساتھ ہو

بعد مرنے كے یہی ہے كافیؔ کی يا رب دعا

دفترِ اشعارِ نعتِ مصطفیٰ كا ساتھ ہو

حرزِ جاں جس نے کیا اسمِ رسول اللہ کو

اُس کے اوپر سے تمامی درد و غم زائل ہوا

جس کو کچھ حبِ مصطفیٰ ہی نہیں

اُس کے ایمان کا پتا ہی نہیں

وسیلہ جوکرے حضرت کا درگاہِ الٰہی میں

اگر کیسی ہی مشکل سخت تر ہو سہل آساں ہو

رسول اللہ کی ہم کو شفاعت کا وسیلہ ہے

شفاعت کا وسیلہ اور رحمت کا وسیلہ ہے

بچوگے مومنو تم گرمیِ خورشیدِ محشر سے

لواے حمد کی ظلِ کرامت کا وسیلہ ہے

مزید چند متفرق اشعار دیکھیں جن میں نبیِ رحمت ﷺ سے استغاثہ و فریاد کے عناصربڑے خلوص و للہیت سے نظم کیے گئے ہیں ، جن سے اہل سنت و جماعت کی شہرۂ آفاق خوش عقیدگی ظاہر ہوتی ہے:

بروزِ جزا یارسولِ خدا

ہمیں دو شفا یارسولِ خدا

نہیں ہے سہارا بجز تم سوا

مرے مصطفیٰ یارسولِ خدا

یا شفیع المذنبیں یا رحمت للعالمیں

خاص محبوبِ خدا سلطانِ عالی الغیاث

خاتمِ پیغمبراں فریاد ہے

دست گیرِ بے کساں فریاد ہے

دردِ دل نے روز تڑپایا مجھے

اے طبیبِ مہرباں فریاد ہے

آپ کی درگاہ ہے دارالشفاء

اس لیے میری یہاں فریاد ہے

کافیؔ نے بڑی خوب صورتی اور فنی چابکدستی سےاچھوتی اور البیلی ردیفوں اور قوافی کو برتاہے ۔ بعض زمینیں بڑی ادق اور سنگلاخ بھی ہیں لیکن ان میں جوتازہ کاری اور طرفگی ہے وہ لائقِ تحسین و آفرین ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دورِ جدید کے کسی شاعر کا کلام پڑھ رہے ہیں ، چند ردیفیں نشانِ خاطر کیجیے: ’’مکہ وبطحا / مدینہ کے قریب / شفاعت / مہرِ نبوت / مولدِ حضرت / نورِ شب ِ ولادت / صلوات / شب ِ معراج / صلاح و فلاح / رسوخ / چاند / تعویذ / اعجاز / اختصاص / وسیلہ ہے/ صاحب ِ حوض / ارتباط / شافع / پیراہن شریف / مدینہ کا فراق / ورفعنا لک ذکرک / حورِ عین / روشن / صلو ا علیہ وسلموا / صلوا علیہ وآلہ/ تجلی وغیرہ۔

کافیؔ کے کلام میں سركاردوعالم ﷺ كے جا نشين خلفاے راشدين رضی اللہ عنہم اجمعین كی شان ميں بھی کلام ملتے ہیں نیز متفرق اشعار بھی ۔ بطورِ نمونہ درجِ ذيل اشعار نذرِ قارئين ہيں:

السلام اے چار يارانِ صفا، اركانِ ديں

مجمعِ جود و حيا، صدق و عدالت، السلام

ثنا خوانِ نبی ہوں اور اصحابِ نبی، كافیؔ

ابو بكر و عمر، عثماں علی سے مجھ كو الفت ہے

مجھے الفت ہے يارانِ نبی سے

ابو بكر و عمر، عثماں ، علی سے

محبت ان كی ہے ايمان ميرا

ميں ان كا مدح خواں ہوں جان وجی سے

اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم اجمعین کی تعریف و توصیف پر مشتمل اشعار بھی کافیؔ کی عقیدت مندانہ نیازمندی کا ثبوت ہیں :

محبت جس کو ہے آلِ عبا سے

اسے الفت ہے ختم الانبیاء سے

طہارت اہلِ بیتِ شاہِ دیں کی

ہوئی ثابت کلامِ انّما سے

وہی مومن ہے جس کو ہے محبت

علی حسنین سے خیرالنساء سے

عدو ان کا عدوے مصطفیٰ ہے

ہوا منقول یہ خیرالوریٰ سے

رہوں آلِ عبا کا میں ثنا خواں

یہی کافیؔ تمنا ہے خدا سے

کافیؔ مرادآبادی کے یہاں غزل کے فارم کے علاوہ دیگر ہئیتوں میں بھی تقدیسی کلام ملتے ہیں ۔ زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے آپ کاکلام بڑے پایے کا ہے جس سے آپ کی قادرالکلامی ظاہر ہوتی ہے۔ عقیدے و عقیدت کی ہمہ رنگی کے ساتھ فنی محاسن کی جلوہ گری بھی متاثرکن ہے۔ ان کے کلام سےابھرنے والی شاعرانہ نزاکتوں کے جلومیں عالمانہ رفعتوں کی دل کش پرچھائیاں ہمیں شاد کام کرتی ہیں ۔ اللہ کریم سے دعاہے کہ ہمیںشہید ِ ملت سلطانِ نعت گویاں حضرت مفتی سید کفایت علی کافی ؔ مرادآبادی علیہ الرحمہ کے فیضان سے مالا مال فرمائے اور ان کی تربتِ اطہر پر انوار و تجلیات کی بارش نازل کرے ، آمین بجاہ النبی الامین الاشرف الافضل النجیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم!

ختم شد!!!


141 views
bottom of page