شعر ۱
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے
حل لغات سرور۔۔ سردار، بادشاہ کشور۔۔ملک نرالے۔۔ عجیب و غریب طرب۔۔ خوشی نشاط
شرح ملک رسالت کے تاجدار سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات کو جب عرش اعظم پر تشریف لے گئے تو آپکے استقبال کے لئے عجیب و غریب انوکھے فرحت و خوشی کے سامان عرب کے مہمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مہیّا کئے گئے تھے
شعر ٢
بہـــار ہے شـــادیاں مُـــبارک چــمــن کــو آبـادیاں مُــبارک مَلَک فلک اپنی اپنی لَے میں یہ گھر عنا دل کا بولتے تھے
حل لغات
[شادیاں=خوشیاں]۔۔[مَلَک=فرشتہ]۔۔[لَے=آواز،سُر]۔۔[گھربولنا=بُلبل کا چہچہانا]۔۔[عنادل=بُلبلیں]
شرح شبِ معراج آسمان اور فرشتے اپنی اپنی آوازوں میں بلبلبوں کی طرح چہچہاتے تھے اور چمنِ جہاں کو خوشیوں اور بہار [جانِ بہار سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم] کی آمد کی مبارک باد دیتے تھے
شعر ٣
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اٹھ رہے تھے
حل لغات
[نفحات = خوشبوؤں کے بھپکے]
شرح دونوں عالم کے دولہا، سرورِ انبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کی خوشی میں زمین و آسماں میں جشن کا سماں تھا، آسمانوں میں بھی خوشیاں منائی جارہی تھیں، زمیں پر بھی ان کی عظمت و کرامت کی دھوم مچی تھی۔ آسمان سے نور و رحمت کی بارش تھی تو زمیں خوشبوؤں میں بسی ہوئی تھی
شعر ٤
یہ چھُوٹ پڑتی تھی اُنکے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھَٹکی وہ رات کـــیا جـــگــمـــگـا رہی تھی جــگہ جــگہ نـصـب آئــینے تھے
حل لغات
[چھُوٹ پڑنا=کسی چیزکاکسی چیز پرعکس پڑنا]۔۔[چھَٹکنا=بکھرنا،پھیلانا]
شرح شبِ معراج سرکارِ دو عالَم ﷺ کے رُخِ روشن سے پڑنے والے عکس کا یہ عالَم تھا کہ زمین سے عرش تک چاندنی ہی چاندنی بکھری ہوئی تھی [اور یوں محسوس ہوتا تھا] کہ زمین و آسماں میں ہر طرف آئینے نصب کردیئے گئے ہوں اور اُن آئینوں سے نور و چاندنی ٹکراٹکرا کر رات کو جگمگارہی تھی۔
شعر ٥
نئی دُلھن کی پھَبَن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا حَجَر کے صدقے کمر کے اِک تِل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے
حل لغات
[پَھبَن = زیبائش،سجاوٹ]۔۔[بناؤ = آرائش،سنگار]
شرح شبِ معراج [جہاں ساری کائنات کو سجایا گیا تھا وہیں] کعبۃ اللہ شریف بھی نئی دلھن کی طرح سجایا گیا تھا اور حَجَرِ اسوَد یوں لگتا تھا [کہ جیسے نظرِ بد سے بچانے کے لئے لگایا گیا] کالا تِل ہو۔ اُس ایک ہی رنگ میں آرائشوں اور سجاوٹوں کے لاکھوں رنگ چھلک رہے تھے۔
شعر ٦
نظر میں دُولھا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سَر جُھکائے سیاہ پردے کے مُنھ پر آنـچـل تـجـلّـیِ ذاتِ بـحـت سـے تھے
حل لغات
[بحت = خالص]
شرح شبِ اسراء کے دُولھا ﷺ کے جلوے جب محراب نے دیکھے تو محراب نے شرماکر اپنا سر جھکا لیا [جو آج تک جُھکا ہُوا ہے] اور اُس کے مُنھ پر اللہ کے خالص جلووں میں سے ایک جلوے کا نُورانی آنچل [پَلّو] ڈال دیا گیا تھا
شعر ٧
خوشی کے بادل اُمنڈ کے آئے دلوں کے طاؤس رنگ لائے وہ نغــمـہِ نعـت کا سَمـاں تھا حَرَم کو خود وَجد آرہے تھے
حل لغات
[اُمنڈکرآنا=ہجوم کرکے آنا]۔۔[طاؤس=مور]۔۔[رنگ لانا=رنگین ہونا،اچھا دکھائی دینا]
شرح شبِ معراج رحمت و انوار کے بادل خوش ہو کر جمع ہوگئے [اور نُور و رحمت برسانے لگے] دلوں کے مور بھی اپنا رنگ دکھا دکھا کر جھومنے لگے، ہر طرف سرکارِ دو عالَم ﷺ کی نعتیں پڑھی جارہی تھیں جنہیں سُن سُن کر خود حَرَم بھی وجد کررہا تھا [جھوم رہا تھا]۔ جیسے کہ سرکارﷺ کی ولادت کے موقعہ پرکعبہِ معظمہ تین دن اور تین راتوں تک وجد کرتا رہا۔ (سیرتِ حلبیہ)
شعر ٨
یـہ جُھـومـا مــیزابِ زر کـا جھـومــر کـہ آرہا کـان پـر ڈھـلـک کـر پُھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حطیم کی گود میں بھرے تھے
حل لغات
[میزاب=کعبۃ اللہ شریف کا پرنالہ]۔۔[زَر=سونا]۔۔[جُھومر=ماتھے کا ایک زیور]۔۔[پُھوہار=ننھی بوندیں]۔۔[حطیم=خانہِ کعبہ کے ساتھ مغرب کی جانب ایک دیوار]
شرح شبِ معراج کعبۃ اللہ شریف کی چھت پر لگا سونے کا پرنالہ بھی [سرکارِ دو عالَم ﷺ کی شان دیکھ کر] خوشی سے جھوم رہا تھا، رحمت و انوار کی ہلکی ہلکی برسات سے جو پانی کعبۃ اللہ شریف کی چھت پر جمع ہورہا تھا وہ موتیوں کی طرح حطیمِ پاک میں گر رہا تھا۔
شعر ٩
دُلھن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے غــلافِ مُــشـکیں جــو اُڑ رہا تھــا غــزال نــافے بــســا رہے تھے
حل لغات
[نسیم=ہَوَا]۔۔[مُشکیں=مشک کے جیسا سیاہ]۔۔[غزال=ہرن]۔۔[نافہ=ایک خاص ہرن کے پیٹ کی تھیلی جو خوشبو دار ہوتی ہے]
شرح شبِ معراج کعبۃ اللہ شریف دُلھن کی طرح سجا ہُوا، خوشبوؤں میں بسا ہُوا تھا اور سرکارِ دو عالَم ﷺ کے عشق میں مست و بیخود تھا، ہَوا بھی کعبۃ اللہ شریف کی خوشبوئیں چار سو اُڑا رہی تھی، اور اُنہی خوشبوؤں سے خود ہرن بھی اپنی اپنی خوشبوؤں کی تھیلیاں [نافے] بھر رہے تھے۔
شعر ١٢
پُـرانـا، پُـرداغ، مَـلـگـجـا تھـا اُٹھـا دیـا فرش چاندنی کا ہجومِ تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادْلے تھے
حل لغات
[ملگجا=کچھ صاف کچھ میلا]۔۔[تار=دھاگہ]۔۔[نگہ=نظر،آنکھ]۔۔[بادْلہ=سونے چاندی کے دھاگوں سے بُنا کپڑا]
شرح چاند کی روشنی کا فرش پرانا اور داغدار تھا، کہیں سے صاف کہیں سے میلا تھا [محبوب ﷺ کی آمد ہے سامان نئے ہونے چاہیئں] اس لئے اس پرانے چاندنی کے فرش کو ہٹا دیا گیا اور اسکی جگہ کثیر تعداد میں نوری مخلوق کی نورانی آنکھوں سے جاری نوری تاروں سے بنا ہوا نیا فرش بچھا دیا گیا تھا۔
شعر ١٣
غُــبــار بـن کــر نــثــار جــائیں کہـاں اب اُس رَہ گــزر کــو پـائـیں ہمارے دل حُوریوں کی آنکھیں فِرشتوں کے پَر جہاں بِچھے تھے
حل لغات غبار… دھول نثار…. قربان
شرح ہم اپنے آقا و مولٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہگزر پر قربان ہوجائیں مگر ہائے افسوس اب وہ مقدس راستہ ہمیں کیسے مِل سکے گا کہ جس راستے سے شبِ معراج سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تھے اور اُس راستے ہر نہ صرف ہمارے دل، بلکہ جنت کی حوروں نے اپنی آنکھیں فرشِ راہ کی ہوئی تھیں اور فرشتوں نے اُس راہ پر اپنے نوری پَروں کو بچھایا ہُوا تھا۔
شعر ١٤
خُـدا ہــی دے صَــبر جـانِ پُـرغـم دِکھــاؤں کـیونکر تجھے وہ عالَم جب اُنکو جُھرمُٹ میں لے کے قُدسی جِناں کا دُولھا بنا رہے تھے
حل لغات
[پُرغم=غموں سے بھرپُور][قُدسی=فِرشتے][جِناں=جنت]
شرح
اے ہجر و فراقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دُکھوں کی ماری میری جان! خدا ہی تجھے صبر کی دولت عطا کرے، میں تجھے کس طرح وہ حسین منظر دکھاسکتا ہوں [کیونکہ تجھ میں وہ تاب ہی نہیں] جب معراج کی شب فرشتوں کی مقدس جماعت جانِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھیرے میں لے کر آپ ﷺ کو جنت کا دُولھا بنا رہی تھی [میری جان، تجھ میں دیکھنے کی تو کیا سننے کی بھی طاقت نہیں ہے]
شعر ١٥
اُتار کــر اُن کــے رُخ کــا صَــدقہ یـہ نُــور کــا بَـٹ رہـا تھـا باڑا کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
حل لغات
[باڑا = خیرات][جبین=پیشانی، ماتھا]
شرح شبِ معراج سرورِ کونین ﷺ کے رُخِ روشن کا صدقہ اتارا جا رہا تھا [ایسا لگ رہا تھا کے رَبِّ کائنات نے سارے جہان کے نوروں کو حکم دے دیا تھا کہ برسنا ہے تو اِس نور الانوار احمد ِ مختار ﷺ کے چہرہِ مبارک پر برسو] سرورِ دو عالَم ﷺ کے چہرہِ اقدس کی نچھاور سے تمام نورانیوں میں نور کی خیرات بانٹی جارہی تھی۔ چاند اور سورج کا یہ حال تھا کہ باوجود اس قدر تابناک و روشن ہونے کے وہ بھی مچل مچل کر سرکارِ دو عالَم ﷺ کی پیشانیِ اقدس کی خیرات مانگ رہے تھے۔
شعر ١٧
بچا جو تلـووں کا اُن کے دَھـووَن بنا وہ جنّت کا رنگ و رَوغن جنھوں نے دُولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نُور کے تھے
حل لغات
[دَھووَن=وہ پانی جس سے کچھ دھویا گیا ہو][اُترن=پہن کر اُتارے ہوئے کپڑے]
شرح شبِ معراج سرکارِ دو عالَم ﷺ کے مبارک تلووں کے باقی بچے ہوئے دھووَن سے جنّت کا رنگ و روغن کیا گیا [جس سے جنت کا حُسن اور بھی دوبالا ہو گیا] سرکار ﷺ اُتارے ہوئے کپڑے بھی خیرات میں بانٹے گئے اور سرکار ﷺ کے نُورانی جسمِ اقدس کی برکتیں لوٹنے والے کپڑوں کا اگر کوئی صحیح معنوں میں حقدار تھا تو وہ نُورانی باغات کے پھول اور شگوفے تھے [جو سرکار ﷺ کی اُترن پا کر اور بھی نُورانی ہوگئے]۔
شعر ١٩
تَـجَـلّــیِ حـق کا سـہرا سَـر پـر صَـلٰـوۃ و تسـلیـم کی نچھاور دو رویہ قُدسی پَرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے
حل لغات
[تجلی=جلوہ]۔۔[صلٰوۃ و تسلیم=درود و سلام]۔۔[نچھاور=بکھیرنا]۔۔[دو رویہ=دونوں جانب]۔۔[قدسی=فرشتے]۔۔[پرے جما کر=صف بنا کر]
شرح شبِ معراج سرکارِ دو عالَم ﷺ کے سرِ اقدس پر ربِ کائنات کی عظمت و جلال کے نورانی جلووں سے سجا سہرا باندھا گیا، آپ ﷺ پر درود و سلام کے پھول نچھاور کئے گئے جب آپ ﷺ درود و سلام کی بارش میں روانہ ہوئے تو جہاں جہاں سے آپ ﷺ گزرتے اُن راستوں کے دونوں جانب فرشتے آپ ﷺ کو سلام عرض کرنے کی غرض سے صف بہ صف کھڑے تھے ۔
شعر ٢٠
جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن مــگــر کــریں کـیا نصـیب مـیں تو یـہ نامُـرادی کے دن لکھے تھے
حل لغات
[واں=وہاں]۔۔[نامُرادی=ناکامی، محرومی]
شرح
ہم ’’ہم‘‘ کیوں ہوئے،[کاش ہم کوئی پہاڑی ہی ہوتے کہ شبِ معراج مقدر بلندی پر ہوتا، کاش کوئی نہر ہی ہوتے کہ شبِ معراج لباسِ آبِ وراں نصیب ہوجاتا، کاش چاند یا سورج ہوتے سرکار ﷺ کے رُخِ روشن کا صدقہ ہی مِل جاتا، کاش ستارے ہوتے کہ سرکارﷺ کے تلووں کا دھووَن قسمت میں ہوتا۔۔۔۔ یہ سب کچھ نہ بھی ہوتے] کاش ہم شبِ معراج سرکار ﷺ کے رہگزر کی خاک ہی ہوتے، سرکار ﷺ کے قدموں سے لپٹ جاتے اور اُن قدمینِ شریفین کی برکتیں حاصل کرتے مگرہائے افسوس ہمارے نصیب میں تو یہ ناکامیوں اور محرومیوں کے ہی دن لکھے تھے کہ [سرکارِ دو عالَم ﷺ کی قربت تو دُور کی بات ہم تو اُن کے طریقوں ہی سے دُور ہو گئے ہیں]
شعر ٢١
ابھی نہ آئے تھے پُشتِ زیں تک کہ سَر ہوئی مغفرت کی شِلّک صــدا شفاعـت نے دی مُــبارَک ! گــناہ مــستانہ جھومتے تھے
حل لغات
[زین=کاٹھی]۔۔[سَر ہونا=فتح کرنا / کامیاب ہونا]۔۔[شِلّک=توپوں یا بندوقوں کی سلامی]
شرح
سرکارِ دو عالَم ﷺ سفرِ معراج پر روانہ ہونے کے لئے ابھی بُراق کی پیٹھ پر رکھی ہوئی نورانی زین [کاٹھی] پر تشریف فرما بھی نہ ہوئے تھے کہ اُمت کی بخشش و مغفرت کا خیال آگیا۔ اِدھر سرکار ﷺ اُمّت کی مغفرت کی خاطر فکرمند ہوئے ہی تھے کہ اُدھر رّب عزوجل کی طرف سے محبوبِ دو عالَم ﷺ کو خوشخبری سنائی گئی کہ آپ ﷺ جس کی شفاعت فرمائیں گے رب تبارک و تعالٰی اس کی مغفرت فرما دیگا۔۔(گویا یہ مغفرت والا معاملہ بھی کامیابی سے طے ہوگیا کہ مغفرت کا دارومدار شفاعت پر ہے) شفاعت کی صدائیں آنے کی دیر تھی کہ خود گناہ خوشی سے مستانہ وار جھومنے لگے [کہ سرکارﷺ کی شفاعت سے ہم معاف کر دئیے جائینگے اور اُمت داخلِ جنت ہوگی، سرکار ﷺ خوش اور راضی ہو جائینگے]
شعر ٢٣
ہجـومِ اُمّـیـد ہے گھـٹـاؤ مُــرادیں دے کـر اِنھـیں ہـٹـاؤ ادب کی باگیں لئے بڑھاؤ مَلائکہ میں یہ غُلغُلے تھے
حل لغات
[ہُجوم=مجمع، بِھیڑ]۔۔[گھٹاؤ=کم کرو]۔۔[مُراد=تمنا، آرزو]۔۔[ہٹاؤ=سِرکانا، دُورکرنا]۔۔[باگ=لگام]۔۔[مِلائکہ=فِرشتے]۔۔[غُلغُلے=شُور و غُل]
شرح شبِ معراج جب سرکارِ دو عالَم ﷺ بُراق پر تشریف فرما ہوکر روانہ ہونے لگے تو زمانے بھر کی اُمیدیں اور تمنائیں سرکار ﷺ کی بارگاہ میں جمع ہوگئیں، سرکار ﷺ کی خدمت و سلامی کے لئے حاضر فرشتوں میں یہ شُور وغل ہوگیا کہ جس جس کی جو بھی تمنا اور آرزو ہے وہ عطا کرکے سرکار ﷺ کے راستے سے یہ مجمع، بھیڑ کو کم کرو اور سرکار ﷺ کی سواری کو نہایت ادب و احترام کے ساتھ آگے بڑھاؤ۔
شعر ٢٤
اُٹھــی جــو گــردِ رہِ مُــنَـوّر وہ نُــور بــرســـا کـــہ راســـتے بَھـــر گِھرے تھے بادل بَھرے تھے جَل تَھل اُمنڈ کے جنگل اُبَل رہے تھے
حل لغات
[بادل گھِرنا=بادلوں کا جمع ہونا]۔۔[جَل تَھل=ہر جگہ پانی پانی ہونا]۔۔[اُمنڈنا=طغیانی آنا]۔۔[اُبلنا=کناروں سے باہر نکل جانا]
شرح سرکارِِ دو عالَم ﷺ جب سفرِ معراج پر روانہ ہوئے تو آپ ﷺ کی سواری سے آپ ﷺ کے راستوں پر ایسی نُورانی گرد اڑی کہ لگتا تھا کہ جیسے آسمان سے نورانی بادل جمع ہوکر نورو تجلیات کی بارش برسا رہے ہیں، اور یہ نورانی بارش اتنی شدید تھی کہ ہر طرف بس نور ہی نور تھا جنگل و ریگستان بلکہ زمین و آسمان میں ہر طرف نوری بارش سے طغیانی آگئی تھی اور ہر شے سے نور کے چشمے چھلک رہے تھے۔
شعر ٢٥
ستم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر وہ خاک اُن کے رَہ گزر کی اُٹھـا نـہ لایا کـہ مَـلـتے مَـلـتے یـہ داغ سـب دیکھـتا مِـٹے تھے
حل لغات
[مَت کٹی تھی=عقل جاتی رہی تھی]۔۔[قمر=چاند]۔۔[مَلنا=رگڑنا، مَسلنا]۔۔[مِٹنا=ناپید ہونا]
شرح اے چاند، تجھے کیا ہُوا تھا، کیا شبِ معراج تیری عقل نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا؟ یہ تو نے اپنے آپ ہر کیسا ظلم کرلیا [کہ آج تک تجھ میں داغ ہے] تُو کچھ سمجھداری کا مظاہرہ کرتا اور شبِ معراج اگر سرکارِ دو عالَم ﷺ کے راستوں کی خاک اُٹھالیتا اور وہ نُورانی خاک خود پر مَلتا تو سرکار ﷺ کے قدمین شریفین کی برکتیں لوٹنے والی خاک کے صدقے میں تیرے سب داغ دُور ہوجاتے۔
شعر ٢٦
بُراق کے نقشِ سُم کے صدقے وہ گل کِھلائے کہ سارے رستے مَــہــکـتے گُـلـبُن لَـہَـکـتے گـلـشن ہَـرے بھـرے لـہلہارہے تھے
حل لغات
[نقش=شبیہ][سُم=گھوڑے کا پاؤں، یہاں مُراد بُراق کا پاؤں][گلبُن=گلاب کا پودا][لَہَکنا=چہچہانا][لہلہانا=جھومنا، ہَوا سے ہلنا]
شرح شبِ معراج سرکار ﷺ کی سُواری براق کے قدموں کے نشان جہاں جہاں پڑتے تھے وہاں وہاں خوشرنگ و خوشبودار پھول کِھل جاتے۔ سرکار ﷺ کے سفرِ معراج کا سارا راستہ حسین و جمیل اور نورانی گلاب کے پھولوں کی طرح مہک رہا تھا، تمام عالَم کسی حسین باغ کا منظر پیش کررہا تھا کہ جہاں ہر پھول پودا شجر سرکار ﷺ کی معراج کی خوشی میں مست و بیخود جھوم رہا تھا۔
شعر ٢٧
نَــمــازِ اقــصٰـی مــیں تھــا یہـــی سِــر عِـیاں ہوں معنیِ اَوّل آخر کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
حل لغات
[سِر=راز][عِیاں=ظاہر][دست بستہ=ہاتھ باندھ کر]
شرح شبِ معراج مقصودِ کائنات ﷺ کا مسجدِ اقصٰی میں تشریف لا کر تمام انبیاءِ کرام کی امامت فرمانے میں کیا راز تھا؟ سرکار ﷺ کا مسجدِ اقصیٰ میں امامت فرمانے میں راز یہ تھا کہ تمام زمانے پر سرکارﷺ کی شان و شوکت، عظمت و رفعت ظاہر ہوجائے کہ بظاہر سرکار ﷺ اس دنیا میں سب سے آخری نبی ہیں مگر آج شبِ معراج تمام انبیاءِ کرام صف بہ صف ہاتھ باندھے مقتدی بنے سرکار ﷺ کے پیچھے کھڑے ہیں اور سرکارﷺ اُن کے امام ہیں گویا سب سے آگے، سب سے پہلے بھی سرکار ﷺ ہیں اور سرکار ﷺ ہی سب سے آخری نبی بھی ہیں۔
شعر ٢٨
یہ اُن کـی آمـد کا دَبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا نُجوم و افلاک جام و مِینا اُجالتے تھے کھنگالتے تھے
حل لغات
[دَبدبہ=رعب][نُجوم=ستارے][افلاک=آسمان][جام=پیالہ][مِینا=صراحی][اُجالنا=صاف کرنا][کھنگالنا=پانی سے برتن صاف کرنا]
شرح شبِ معراج سرکار ﷺ کی آمد کے موقع پر تمام کائنات پر سرکار ﷺ کی عظمت و جلال کا رعب طاری تھا، ہر ہر شے کو نکھارا جا رہا تھا، ستارے اور آسمان [شرابِ طہور] کے پیالوں اور صراحی کی صفائی کر رہے تھے، پیالوں اور صراحیوں کا اُجلا و مُصفٰی کیا جا رہا تھا
شعر ٢٩
نـقـــاب اُلـٹے وہ مِــہــرِ اَنـوَر جــلالِ رُخـــســار گـــرمــیـوں پـر فلک کو ہیبت سے تَپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے
حل لغات
[مِہر=آفتاب، سورج][جلال=بزرگی، عظمت][رُخسار=گال][تَپ=گرمی، حرارت][تپکنا=ٹیس اٹھنا، جلن][انجم=ستارے][آبلے=چھالے]
شرح سرورِ کائنات ﷺ [جو آسمانِ رسالت و نبوت کے آفتاب ہیں] نے جب اپنے رُخِ روشن سے نقاب اُٹھایا تو جانِ عالَم ﷺ کے چہرہِ اقدس کے حسن و جمال کی جلالت سے آسمان ہیبت زدہ ہوگیا اور اس کو بخار چڑھ گیا، ستاروں نے آپ ﷺ کا جمال دیکھا تو ستاروں کے جسم پر چھالے پڑ گئے جن سے پانی [روشنی و نور] رِسنے لگا۔
شعر ٣٠
یـہ جـوشــشِ نُـور کـا اثـر تھــا کــہ آبِ گـوہـر کــمــر کــمــر تھا صفائے رہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے
حل لغات [جوشش=ولولہ،تیزی][آبِ گوہر=موتی کی چمک][کمر کمر=کمر تک][صفا=پاکیزہ، ہموار]شرح شبِ معراج انوار و تجلیات کے جوش کا یہ عالَم تھا ہر شے نور کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی، سرکار ﷺ کی گزرگاہوں کی صفائی اور چمک کا یہ حال تھا کہ ستارے آپ ﷺ کے راستے میں پھسل پھسل کر قدمینِ شریفین کو بوسے دیتے تھے۔
شعر ٣١
بــڑھــا یـہ لــہرا کے بـحرِ وحـدت کـہ دُھـل گـیا نـامِ ریـگِ کـثـرت فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بُلبُلے تھے
حل لغات
[لہرانا=جھومنا][بحر=سمندر][وحدت=یکتائی، توحید][ریگ=ریت]
شرح وحدت کا سمندر اپنے پورے جوش کے ساتھ آگے بڑھا اور اس طرح آگے بڑھا کہ ریت [عالَمِ امکان] کے تمام ذرے فنا ہو گئے، آسمان کی بلندی و رفعت کا کیا پوچھتے ہو وحدانیت کی لہروں کے جوش کے آگے تو یہ عرش و کرسی بھی دو بلبلے دکھائی دے رہے تھے بلبلا=حباب (مجازی طور پر ناپائیدار چیز کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے)
شعر ٣٢
وہ ظِـلِّ رحـمت وہ رُخ کے جلوے کہ تارے چُھپتے نہ کِھلنے پاتے سُنہری زَربفت اُودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے
حل لغات
[ظل=سایہ][زَربفت=ایک کپڑا جو سونے اور ریشم کے تاروں سے بُنا جاتا ہے][اُودی=سُرخی مائل کالا رنگ][اطلس=ریشمی کپڑا][تھان=جگہ، مقام]
شرح شبِ معراج ہر طرف رحمتوں کا سایہ تھا اور اُن رحمتوں کے جابجا سائے کے ساتھ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے رُخِ روشن کے جلووں کا عالَم بھی نِرالا تھا، رحمتوں کے سائے اور سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہِ اقدس کے جلووں کو دیکھ کر ستارے عجیب کشمکش میں تھے کہ کِھل جائیں یا چُھپ جائیں، اگر کِھلیں گے تو چہرہ اقدس ﷺ کے جلووں کے سامنے ہماری کیا اوقات اگر چُھپ جائیں تو سرکار ﷺ کے جلووں سے محروم ہوجائیں گے، کریں تو کیا کریں۔۔ دوسری طرف دھوپ اور چھاؤں کو بھی شبِ معراج کی برکتوں سے حصہ مِلا، دھوپ کو سنہرے کمخواب میں بدل دیا گیا اور چھاؤں کو اودی اطلس کے حسین ریشمی کپڑے کا مقام عطا ہُوا۔
شعر ٣٣
چلا وہ سَــروِ چَـمَـاں خِـراماں نہ رُک سکا سدرہ سے بھی داماں پَلَک جھپکتی رہی وہ کب کے سب اِین و آں سے گزر چکے تھے
حل لغات
[سَروْ=ایک درخت جو بالکل سیدھا ہوتا ہے، خوشنما ہونے کے باعث محبوب کے قد سے تشبیہ دی جاتی ہے][چماں=باغ][خراماں=آہستہ][اِین و آں=یہ اور وہ، نزدیک و دُورکا اشارہ]
شرح
وہ سیدھے قد والا محبوب (باغِ وحدت کا سَروْ) صلی اللہ علیہ وسلم ایسے محبوبانہ انداز سے آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیا کہ سدرہ المنتھٰی کا بلند و بالا مقام بھی پیچھے رہ گیا، پلک تھی کہ جھپکتی ہی رہ گئی اور وہ کہاں سے کہاں پہنچ چکے تھے۔
[ایک طرف اعلحٰضرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے کے انداز کا ذکر کر رہے ہیں کہ ناز و انداز سے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے اور دوسری طرف ارشاد فرما رہے ہیں کہ پلک جھپکنے کے قلیل ترین عرصے میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے گویا سرکار ﷺ کے آرام آرام سے چلنے کی رفتار یہ ہو تو سرکار ﷺ کی رفتار کی رفتار کیا ہوگی]
شعر ٣٤
جھلک سی اِک قدسیوں پر آئی ہَوا بھی دامن کی پھر نہ پائی سُـواری دُولھـا کــی دُور پـہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے
شرح سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی خاطر جو ملائکہ راستوں میں کھڑے تھے وہ محض ایک جھلک ہی سے فیض یاب ہوسکے اور اپنے ہوش گنوا بیٹھے پھر کہاں دامن کی ہَوا اور کہاں دامن والا۔۔ جب تک ہوش سنبھالے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی سُواری بہت دُور جا چکی تھی۔
شعر ٣٥
تھکے تھے روح الامیں کے بازو چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو رکاب چھوٹی امید توٹی نگاہِ حسرت کے ولولے تھے
شرح جب سرکار ﷺ کی سواری مقامِ سدرہ تک پہنچی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ اس سے ٓگے وہ نہیں جا سکتے۔ سرکارِ دو عالم ﷺ اب تنہا ہی سدرہ سے آگے روانہ ہوئے جبریلِ امیں کے ہاتھ سے سرکار ﷺ کی معیت کا دامن چھوٹ گیا اور وہ اب سرکار ﷺ کو تنہا آگے تشریف لے جاتا ہوا دیکھ رہے تھے
شعر ٣٦
روش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اک بھبوکا پھوٹا خرد کے جنگل میں پھول چمکا دہر دہر پیڑ جل رہے تھے
حل لغات
[رَوِش = رفتار]۔۔[بھبھوکا=شعلہ]۔۔[خِرَد=عقل]۔۔[دہر دہر = ہر جگہ، ہر طرف]
شرح
حضور سرورِ عالم ﷺ کی رفتار کا اندازہ جس نے بھی لگانا چاہا، ابھی سوچا ہی تھا کہ دماغ میں ایک شعلہ بھڑکا، ایک پھول چمکا اور اس پھول نے پھول ہو کر عقل کے جنگل کے تمام درختوں کو جلا کر رکھ دیا [یعنی اگر ہماری چھوٹی، ناقص عقل رفتارِ مصطفٰے ﷺ کا اندازہ لگانا چاہے تو ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا]
شعر ٣٧
جِلو میں جو مُرغِ عقل اُڑے تھے عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دَم تیورا گئے تھے
حل لغات
[جلو=ہمراہی][تیورانا=چکراجانا ، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاجانا]
شرح عقل نے کوشش کی حضور ﷺ کے ساتھ ساتھ آگے جانے کی مگر مقامِ سدرۃ المنتھٰی تک پہنچنے میں ہی حالت خراب ہوگئی اور جب دیکھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی سدرہ سے آگے جانے کی طاقت نہیں رکھتے تو مزید آگے جانے کا سوش کر ہی عقل کو چکر آنے لگے
شعر ٣٨
قوی تھے مرغانِ وَہم کے پَر اڑے تو اڑنے کو اور دم بھر اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تھوکتے تھے
حل لغات
[قوی= طاقت ور][مرغانِ وہم=سوچ کے پرندے (یہاں مراد پروازِ سوچ ہے)]
شرح عقل تو تھک کر مقامِ سدرہ پر ہی رک گئی مگر سوچ کی پرواز عقل سے بھی زیادہ طاقتور تھی، سوچ نے چاہا کہ سدرہ سے آگے کی بلندی کو دیکھا جائے،، کچھ ہی لمحوں میں ایسی ٹھوکر کھائی کہ سوچ سینے کے بل گر پڑی اور مزید سوچنے سے توبہ کرلی ورنہ اندیشہ تھا کہ خون کی قے نہ ہونے لگے
شعر ٣٩
سُنا یہ اتنے میں عرشِ حق نے کہ لے مبارک ہوں تاج والے وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاجِ شرف ترے تھے
شرح حضور ﷺ اب تنہا آگے روانہ ہوئے، عرش کو یہ خوشخبری ملی کہ، اے عرش! تجھے مبارک ہو وہ تاجدارِ انبیا تشریف لارہے ہیں جن کے قدموں کی برکت پہلے ہی تیرے لیے عزت و عظمتوں کا تاج تھی
شعر ٤٠
یہ سُن کے بےخود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا پھر ان کے تلووں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
شرح عرش نے جب یہ خوشخبری سنی کہ سرکار ﷺ تشریف لا رہے ہیں، سن کر بیقرار ہوگیا، وجد میں آکر پکارنے لگا،، میرے سرکار کہاں ہیں آپ؟ جلد تشریف لایئے کہ میں آپ کے مبارک تلووں کو چومنے کی سعادت حاصل کرسکوں، مدت سے میری آنکھیں آپ کے قدمینِ شریفین کی زیارت کرنے کے لیے بیتاب تھیں۔
شعر ٤١
جھکا تھا مجرے کو عرشِ اعلٰی گرے تھے سجدے میں بزمِ بالا یہ آنکھیں قدموں سے مَل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے
حل لغات
[مجرا= سلام کرنا][بزمِ بالا=آسمانوں کی نوری مخلوق]
شرح عرشِ اعلٰی حضور ﷺ کو سلام کی غرض سے جھک گیا تھا، آسمانی مخلوق (نوری رشتے) اللہ تبارک وتعالٰی کا سجدہِ شکر ادا کررہے تھے کہ ان کو سرکار ﷺ کی زیارت عطا ہوگئی، عرش اپنی آنکھیں حضور ﷺ کے قدموں سے مل رہا تھا اور نوری مخلوق حضور ﷺ کے گرد پھر پھر کر قربان ہورہی تھی
شعر ٤٢
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جھلملائیں حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منھ اپنا دیکھتے تھے
حل لغات
[ضیا= روشنی][قندیل=فانوس][حضورِ خورشید= سورج کے سامنے (یہاں مراد حضور ﷺ کے سامنے)][منھ دیکھنا= محاورہ ہے، حیران رہ جانا]
شرح عرش پر ایسی روشنی آئی (سرکار ﷺ کے رُخِ منور کی روشنی) کہ عرش کے سارے فانوسوں کی روشنی دھیمی پڑگئی،، عرش اوراس کے فانوس کی روشنیوں کی کیا مجال کہ سرکارﷺ کے رُخِ روشن کے سامنے چکمتے بلکہ وہ تمام روشنیاں سرکار ﷺ کے نور کو دیکھ کر حیران رہ گئیں تھیں
شعر ٤٣
یہی سماں تھا کہ پَیکِ رحمت خبر یہ لایا کہ چلیےحضرت تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
حل لغات
[سماں= موقع، گھڑی][پَیک=منادی][کشادہ= کھلے ہوئے ہونا، وسیع][کلیم= حضرت موسٰی علیہ السلام]
شرح یہی وہ گھڑی تھی کہ رحمت کے منادی نے یہ خبر سنائی کہ حضورِ والا ﷺ آگے بڑھیے آپ کی خاطر وہ راستے بھی کھول دیے گئے ہیں جو حضرت موسٰی کلیم اللہ علیہ السلام پر بھی بند تھے۔ (حضرت موسٰی کلیم اللہ علیہ السلام نے بارگاہِ رب عزوجل میں عرض کی تھی کہ مولٰی مجھے اپنا دیدار عطا فرما، اللہ تبارک وتعالٰی نے ارشاد فرمایا تھا ’’لَن تَرَانِی‘‘ کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے اور اب اللہ تبارک وتعالٰی اپنے محبوب ﷺ کو اپنے دیدار کی سعادت عطا کرنے کے لیے خود طلب فرما رہا ہے)
شعر ٤٤
خرد سے کہدو کہ سر جھکا لے گماں سے گزرے گزرنے والے پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے
حل لغات
[خرد=عقل][گماں=سوچ، فکر][یاں=یہاں][جہت= سمت، اطراف][لالے پڑنا=مایوس ہوجانا، امید ٹوٹنا]
شرح عقل سے کہدو کہ اب اپنا سر جھکا کر ہار مان لے کیونکہ عقل کی سوچ اور گمان سے میں حضور ﷺ کی رفعتیں نہیں آسکتی،، بلکہ یہاں تو سمتیں (اطراف) خود حیران و پریشان ہیں کہ شبِ معراج حضور ﷺ کہاں تشریف لے گئے تھے
شعر ٤٦
سُراغِ این و متٰی کہاں تھا نشانِ کیف و الٰی کہاں تھا نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے
حل لغات
[سُراغ=کھوج، نشان][این=کہاں][متٰی=کب][کیف=کیسے][الٰی=تک]
شرح حضورِ انور ﷺ جہاں تشریف لے گئے وہاں کا کوئی نشان ڈھونڈنا بھی چاہے تو کیسے ڈھونڈے؟ کیوں، کہاں، کب، کیسے، کدھر، جیسے سوالات ختم ہوچکے تھے، جبریلِ امیں بھی پیچھے رہ گئے تھے، حضورِ انور ﷺ تنہا ہی آگے بڑھے تھے، نہ پتھروں کا راستہ تھا کہ (پتھروں پر ہی ان کے نقشِ قدم دیکھ لیتے) نہ منزلوں کی کوئی حد تھی
شعر ٤٧
اُدھر سے پیہم تقاضے آنا اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رحمت ابھارتے تھے
حل لغات
[پیہم= مسلسل][تقاضے=طلب کرنا][ابھارنا=آمادہ کرنا]
شرح اُدھر (بارگاہِ رب العلمین) سے مسلسل ملاقات کے تقاضے تھے جبکہ اِدھر سے (سرکار ﷺکے لیے) اللہ تبارک وتعالٰی کے جلال و عظمت کی وجہ سے ادب و احترام کے تقاضوں کے مدِ نظر ایک ایک قدم اٹھانا مشکل ہورہا تھا۔۔ ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالٰی کی رحمت حضور ﷺ کو مزید آگے روانے کے لیے آمادہ بھی کررہی تھی اور حوصلہ بھی بڑھا رہی تھی
شعر ٤٨
بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے، حیا سے جھکتے ادب سے رکتے جو قُرب انہیں کی رَوِش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
حل لغات
[قُرب=نزدیکی][رَوِش=رفتار]
شرح پھر حضورِ انور ﷺ شرم و حیا کا پیکر بنکر، خوفِ خدا کا لبادہ اوڑھ کر، بڑے ہی ادب و احترام سے آگے بڑھے،، اگر حضور اللہ تبارک وتعالٰی سے ملاقات کو اسی رفتار پر ہی طے کیا جاتا تو فاصلہ کبھی ختم نہ ہوتا (اس سے آگے اگلے شعر میں)
شعر ٤٩
پر اُن کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فِعل تھا ادُھر کا تَنَزّلوں میں ترقی افزا دَنَا تَدَلٰی کے سلسلے تھے
حل لغات
[تنزل=نزول ہونا، اترنا][افزا=زیادہ، بڑھا ہوا][دَنَا تدلّٰی=قریب ہوا بہت قریب ہوا، قرآنی آیت ’’ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی‘‘ کی طرف اشارہ ہے]
شرح حضورِ انور ﷺ کا آگے بڑھنا تو برائے نام تھا، حقیقت میں تو یہ فعل اللہ تبارک وتعالٰی کی جانب سے ہی تھا، کہ اُس ذات عزوجل نے خود اپنی شان کے مطابق حضورِ انور ﷺ کی طرف نزول فرمایا اور یہ نزول حضورِ انور ﷺ کے لیے ہزاروں ترقیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا، پھر سلسلہ ’’ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی‘‘ تک جا پہنچا۔ قربِ خداوندی حضور ﷺ کی معراج ہے [ شعر ٥٠
ہُوا نہ آخر کہ ایک بجرا تَمَوّجِ بحرِ ہُو میں اُبھرا
دَنٰی کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھا دیے تھے
[بجرا=کشتی][تموج=دریا میں لہریں اٹھنا، تلاطم][بحر=سمندر][ہُو=مرادِ ذاتِ باری تعالٰی][دنَا=قرب][فنا=ذاتِ باری کے سِوا کچھ باقی نہ رہنا][لنگراٹھانا=کشتی کا رسہ کھول کر اس کو دریا میں چلا دینا]
پھر ھُو کی قیامت خیز لہروں (انوار و تجلیاتِ ذاتِ باری تعالٰی کی بجلیوں) سے ایک نہایت عمدہ کشتی (توفیقِ خداوندی کی) نمودار ہوئی، جس نے ہمارے آقا ﷺ کو قُرب کی گود میں بٹھایا اور فنا کے تمام رسّے کھول دیے (لنگر اٹھا دیے) اور فنائیت کے نہایت ہی اعلٰی و ارفع مقام کی جانب لے گئی (اس سے آگے اگلے شعر میں)
شعر ٥١
کسے مِلے گھاٹ کا کنارا کدھر سے گزرا کہاں اتارا بھرا جو مثلِ نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے
حل لغات
[گھاٹ=دریا کا وہ حصہ جہاں سے دریا پار کیا جاتا ہے][طرارا=چھلانگ لگانا]
شرح وحدت کے سمندر کا گھاٹ اور کنارا ہی نہیں تو کوئی کیسے بتا سکتا ہے کہ حضور ﷺ کو کہاں کہاں سے گزرے اور پھر کس مقام پر اترے۔۔ وہ کشتی جو ’’بحرِ ھُو‘‘ میں نمودار ہوئی تھی اس نے ایسی رفتار دکھائی (جس طرح نظر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتی ہے) کہ نہ صرف دوسروں بلکہ حضور خود اپنی بھی نظر سے چھپ گئے تھے
شعر ٥٢
اُٹھے جو قصرِ دَنَا کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جا ہی نہیں دُوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
[قصر=محل][دَنَا=قرب، نزدیکی][جا=جگہ][دوئی=دوسرا]
پھر اللہ تبارک وتعالٰی نے سرکارِ دو عام ﷺ کو قربِ خاص عطا فرمایا، قرب کے محل کے جب پردے ہٹ گئے تو وہاں اللہ تبارک وتعالٰی اور نبیِ کریم ﷺ کے علاوہ کوئی دوسرا (نہ فرشتہ نہ کوئی نبی و رسول) نہیں تھا، تو کوئی کیسے بتا سکتا ہے کہ وہاں کیا تھا، کوئی یہ نہ سمجھے کہ سرکار ﷺ بھی نہ تھے، ارے وہ تو تھے کیونکہ یہ سب انتظامات و اہتمام انہی کے لیے تو کیا گیا تھا
شعر ٥٣
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گل کا فرق اٹھایا گرہ میں کلیوں کی باغ پھولے گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
حل لغات
[گرہ=بندش][تکمے=گریبان کا حلقہ]
شرح اس گلشنِ وحدت میں کچھ ایسا منظر دکھائی دیا کہ کلی و غنچہ بھی پھول دکھائی دینے لگے، کلیوں کے دامن میں باغ کھل اٹھے اور خود کلیوں کے گریبان میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے تھے
شعر ٥٤
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
حل لغات
[محیط=گھیرا، دائرہ][مرکز=درمیانی نقطہ][فاصل= جدا کرنے والا][خطوط=لکیریں][واصل=شامل]
شرح
دائرہ اور مرکز (دائرے کا سینٹر جہاں پرکار کی نوک رکھی جاتی ہے) میں جدائی اور ملاپ والی تمام لکیریں آپس میں مل گئیں، کمانیں حیران سر جھکائے بیٹھی تھیں اور خود دائرہ حیران و پریشان تھا۔ دائرہ سے مراد کائنات ہے کہ کائنات ساری حیران تھی حضور ﷺ کہاں گئے تھے۔ [اس شعر میں سیدی اعلٰحضرت نے علمِ جیومیٹری کی ایک اصطلاح لیمیٹنگ پوزیشن کے ذریعے بات سمجھانے کی کوشش کی ہے]
شعر ٥٥
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے مِلے تھے
حل لغات
[حجاب=پردہ][وصل=ملاقات][فرقت=جدائی][جنم=پیدائش (ہندی][گلے ملنا=معانقہ کرنا]
شرح وصل اور فرقت یہ دونوں کیفیتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں.. اگر وصل ہے تو فرقت نہیں.. اگر فرقت ہے تو وصل نہیں.. اللہ تبارک وتعالٰی نے جب سے وصل اور فرقت کو پیدا کیا جب سے ہی یہ دونوں الگ الگ ہیں……. مگر……!!!!! جب اللہ تبارک وتعالٰی کی اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی (لامکاں میں) تو وہ ایسی گھڑی تھی کہ خود وصل اور فرقت جو اپنے جنم سے ہی ایک دوسرے سے بچھڑے ہوئے تھے اس وقت، اس گھڑی میں جب اللہ تبارک وتعالٰی اور محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی اور کوئی حجاب درمیان نہ تھا تو خود وصل اور فرقت دونوں کیفیتیں بھی گلے مل رہی تھیں
شعر ٥٦
زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں بھنور کو یہ ضعفِ تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے
حل لغات
[ضعف=کمزوری][تشنگی=پیاس]
شرح دریائے وحدت کی موجیں بھی خشک زبانی کی شکایت کررہی تھیں اور وصل کا پانی مانگتی تھیں اور بھنور(باوجود یہ کہ خود طاقت رکھتا ہے) مگر اس وقت وہ دیدار کا پیاسا ہوچکا تھا اور پیاس کی شدت سے کمزوری ایسی بڑھی کہ اس کی آنکھوں پہ حلقے پڑ گئے تھے
شعر ٥٧
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے
شرح اللہ تبارک وتعالٰی ہی اوّل ہے، وہی آخر وہی ظاہر و باطن ہے اور حضور ﷺ اللہ تبارک وتعالٰی کا جلوہِ خاص ہیں۔ معراج کی رات اللہ تبارک وتعالٰی کا یہ جلوہ خاص اللہ تبارک وتعالٰی کے بلانے پر اللہ تبارک وتعالٰی سے ملنے گیا تھا
شعر ٥٨
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
حل لغات
[کمان=تیر چلانے کا لکڑی کا آلہ، یہاں مراد دنیا کی گولائی][امکان=ممکن، دنیا][محیط=دائرہ]
شرح اے عالمِ امکان کے جھوٹے نقطو! تم تو ابھی تک اول آخر کے چکر میں پھنسے ہوئے ہو، ذرا دائرے کی چال سے معلوم کرو کہ ’’قاب قوسین او ادنٰی‘‘ کے قرب والا محبوب فنا و بقا کی منزلیں طے کرنے کے لیے کدھر سے آیا تھا اور کدھر گیا دائرہ بنانے کے لیے پرکار کی نوک سے دائرہ کا مرکز مقرر کیا جاتا ہے پھر پرکار کے دوسرے دستے پر پینسل سے کاغذ پر پہلا نقطہ لگایا جاتا ہے، یہ نقطہِ اول ہے اگر دائرہ مکمل کیے بغیر محض آدھی گولائی (کرْو curveْ) تک چھوڑ دیا جائے تو یہ
اس گولائی کا آخری نقطہ کہلائے گا لیکن دائرہ مکمل بنا دیا جائے تو اب کوئی نقطہِ اول یا نقطہِ آخر نہیں بچتا بس ایک دائرہ ہوتا ہے۔۔دائرہ بن جاتا ہے تو معلوم نہیں ہوسکتا کہ دائرہ دائیں طرف سے کھینچا گیا یا بائیں طرف سے (کلاک وائز یا اینٹی کلاک وائز)۔ ماہرینِ جیومیٹری ان باتوں کو خوب جانتے ہیں ، اعلٰیحضرت نے اس شعر میں علمِ جیومیٹری سمو دیا ہے اور نقطہ بیان فرمادیا کہ جب ایک دائرے سمجھ میں نہیں آسکتا تو حضور ﷺ کا آنا جانا کیسے سمجھ آسکتا ہے
شعر ٥٩
اِدھر سے تھیں نذر شہ نمازیں اُدھر سے انعامِ خسروی میں سلام و رحمت کے ہارھ گندھ کر گلوئے پُرنور میں پڑے تھے
حل لغات
[نذرِ شہ= بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا جانے والا تحفہ][انعامِ خسروی= بادشاہ کی طرف سے نوازا جانے والا تحفہ][گندھ کر=پروکر، لڑی بنا کر][گلو=گلا، گردن]
شرح سرکارِ دو عالم ﷺ کی جانب سے نمازوں، عبادتوں اور عاجزیوں کے نذرانے بارگاہِ خداوندی میں پیش کیے جارہے تھے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے درود و سلام کے ہار رحمت کی لڑیوں میں پرو کر سرکار ﷺ کے نورانی گلے میں ڈالے جارہے تھے
شعر ٦٠
زبان کو انتظارِ گُفتَن تو گوش کو حسرتِ شُنیدَن یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
حل لغات
[گُفتن=گفتگو][گوش=کان][شنیدن=سننا، سماعت]
شرح زبان کچھ کہنے کی منتظر تھی تو کان سننے کے انتظار میں مگر زبان اور کانوں کو حسرت ہی رہی کیونکہ محبوب و محب کی ملاقات میں جو بات ہونی تھی وہ ہوگئی تھی اور اس کے بارے میں قرآنِ پاک میں ارشاد ہوا، ’’فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰی‘‘ ترجمہ اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔
شعر ٦١
وہ برجِ بطحا کا ماہ پارہ بہشت کی سیر کو سدھارا چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اس قمر کے قدم گئے تھے
حل لغات
[برج=فضائے آسمان کا بارہواں حصہ][بطحا=مکہ مکرمہ]۔۔[ماہ پارہ=چاند کا ٹکڑا][بہشت=جنت][سدھارا=روانہ ہوا]
شرح
وادیِ مکہ کے آسمان کے چاند جب جنت کی سیر فرمانے گئے تو جنت کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا، [جنت حضور ﷺ کے قدموں کو چوم کر وجد میں تھی]
شعر ٦٢
سرورِ مقدم کی روشنی تھی کہ تابشوں سے مہِ عرب کی جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
حل لغات
[سرورِ مقد=آنے کی خوشی][تابشوں=تجلیوں، رشنیوں][مہِ عرب=عرب کا چاند][جناں=جنت][جھاڑ فرشی=کانٹے دار فرش]
شرح سرکارِ دو عالم ﷺ کی آمد آمد تھی، حضور ﷺ کے روئے روشن سے روشنیوں اور تجلیوں کا سیلاب امڈا ہُوا تھا ان روشنیوں کے سامنے جنّت کے باغات بھی ماند پڑگئے تھے اور جو پھول تھے وہ سب کنول لگ رہے تھے
شعر ٦٣
طرب کی نازش کہ ہاں لچکیے ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکیے جوشِ ضدّین تھا کہ پودے کشاکشِ ارّہ کے تلے تھے
حل لغات
[طرب=خوشی][نازش=نخرہ][ضدین=دو مخالف چیزیں][کشاکش=کھینچا تانی، دھکم پیل][ارہ=لکڑی چیرنے کا آلہ][تلے=نیچے]
شرح جنت کے پودے سرکار ﷺ کی آمد پر عجیب کشمکش میں تھے کوشی کہتی تھی کہ جھومو، سرکار ﷺ کی آمد ہے مگر ادب کہتا تھا کہ خبردار ذرا بھی ایسی حرکت نہ کرنا جس سے سرکارِ دو عالم ﷺ کی بے ادبی کا شائبہ ہو۔ جنت کے پودے خوشی اور ادب کی اس آری کے نیچے آگئے تھے کہ کریں تو کیا کریں
شعر ٦٤
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزل میں جلوہ کرکے ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلیے تھے
حل لغات
[نور کے تڑکے=اجالے، سویرے]
شرح خدا کی شان دیکھیے کہ اللہ تبارک وتعالٰی کا چاند، مصطفٰے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کروروں منزلوں کو اپنا جلوہ دکھا کر جب واپس آئے تو روانہ ہوتے وقت ستارے جس جگہ تھے اسی جگہ اسی طرح چمک رہے تھے کہ ان کے سایے کو پوزیشنز تک نہ بدلیں تھیں، اور نور کا ایسا سمندر بہہ رہا تھا کہ جیسے صبح صادق کا وقت ہوگیا ہو۔
شعر ٦٥
نبیِ رحمت، شفیعِ امّت! رضؔا پہ للہ ہو عنایت اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
حل لغات
[خلعت=تحفہ، عطیہِ تحسین، آفرین]
شرح اے میرے رحمت والے آقا! اے امت کی شفاعت فرمانے والے آقا! اپنے در کے گدا احمد رضؔا پر بھی خدارا مہربانی فرما دیجیے اور معراج کی رات بارگاہِ خداوندی عزوجل سے جو آپ کو خصوصی انعامات عطا ہوئے، ان میں سے ایک ذرہ اس (احمد رضؔا) کو بھی عطا ہوجائے
شعر ٦٦
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبولِ سرکار ہے تمنا نہ شاعری کی ہوس نہ پروا رَوِی تھی کیا کیسے قافیے تھے
شرح یا رسول اللہ ﷺ، آپ کی تعریف و توصیف کرنا میرا وظیفہ ہے، اور آپکی بارگاہ میں اسکا قبول ہوجانا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے ورنہ مجھے شاعری کا نہ شوق ہے نہ کوئی اور لالچ کہ قافیوں اور حرفِ رَوِی کی تلاش کرتا رہوں۔ (بس آپ کی شان و عظمت کا بیان اور آپ کی محبت کا اظہار مقصود ہے)