ہم بھی اے کاش مدینے کو بلائے جاتے

ہم بھی اے کاش مدینے کو بلائے جاتے
 
رو کے سرکار کو دُکھ درد سنائے جاتے

زندگی اسوہ سرکار پہ ہوتی جو بسر
 
پھر نہ دنیا میں مسلمان ستائے جاتے

اہل کفار میں ہو جاتا تھا لرزاں طاری
 
جس گھڑی نعرہ تکبیر لگائے جاتے

کاش! طیبہ میں کبھی اپنا بلاوا ہوتا
 
حالِ دل آقا کو رو رو کے سنائے جاتے

آؤ امداد کو پھر ہند میں ابن قاسم
 
ہند میں پھر ہیں مسلمان ستائے جاتے

میرے سرکار کو دنیا یہ سمجھ جائے اگر
 
پھر تو ہر گھر میں ہی میلاد منائے جاتے

ڈنک سہتے رہے محبوب کو تکلیف نہ دی
 
دوستی ایسی ہے یاروں سے نبھائے جاتے

کربلا سے ہمیں پیغام حسینی ہے ملا
 
سر کو دے کر بھی ہیں اسلام بچائے جاتے

آج محفل میں ہے جو نعت پڑھی طارق نے
 
جاکے سرکار کو طیبہ میں سنائے جاتے

محمد طارق قادری آعظمی

    570
    0