گلریز بنا ہے شاخِ خامہ

گلریز بنا ہے شاخِ خامہ
 
فردوس بنا ہوا ہے نامہ

نازل ہیں وہ نور کے مضامیں
 
یاد آتے ہیں طور کے مضامیں

سینہ ہے تجلّیوں کا مسکن
 
ہے پیشِ نگاہ دشتِ ایمن

توحید کے لطف پا رہا ہوں
 
وحدت کے مزے اُڑا رہا ہوں

دل ایک ہے دل کا مدعا ایک
 
ایماں ہے مرا کہ ہے خدا ایک

وہ ایک نہیں جسے گنیں ہم
 
وہ ایک نہیں جو دو سے ہو کم

دو ایک سے مل کے جو بنا ہو
 
وہ ایک کسی کا کب خدا ہو

اَحْوَل ہے جو ایک کو کہے دو
 
اندھوں سے کہو سنبھل کے دیکھو

اُس ایک نے دو جہاں بنائے
 
اک ’کُنْ‘ سے سب انس و جاں بنائے

اوّل ہے وہی، وہی ہے آخر
 
باطن ہے وہی، وہی ہے ظاہر

ظاہر نے عجب سماں دکھایا
 
موجود ہے اور نظر نہ آیا

کس دل میں نہیں جمال اُس کا
 
کس سر میں نہیں خیال اُس کا

وہ ’حبلِ ورِید‘ سے قریں ہے
 
ہاں تاب نظر میں نہیں ہے

فرمان ہے یُؤمِنُونَ بِالْغَیْب
 
نادیدہ وہ نورِ حق ہے لارَیْب

آنکھوں میں نظر، نظر کناں ہے
 
آنکھیں تو کہیں، نظر کہاں ہے

سب کچھ نظر آئے اس نظر سے
 
پر دیکھیں نظر کو کس نظر سے

جب خلق کو یہ صفت عطا ہو
 
وہ کیا نظر آئے جو خدا ہو

جو وہم و قیاس سے قریں ہے
 
خالق کی قسم خدا نہیں ہے

جو بھید کو اُس کے پا گئے ہیں
 
ہستی اپنی مٹا گئے ہیں

کچھ راز اُدھر کا جس نے پایا
 
پھر کر وہ اِدھر کبھی نہ آیا

کچھ جلوہ جسے دکھا دیا ہے
 
صُمٌّ بُکْمٌ بنا دیا ہے

دل میں ہیں ہزاروں بحر پُر جوش
 
ہے حکم زبان کو کہ خاموش

اک جلوہ سے طور کو جلایا
 
بے ہوش کلیم کو بنایا

پنہاں ہیں جو سنگ میں شرارے
 
کرتے ہیں کچھ اور ہی اِشارے

ہے شعلہ فشاں یہ عشق کامل
 
پتھر میں کہاں سے آ گیا دل

ذات اُس کی ہے معطیِ مرادات
 
قائم ہیں صفات پاک بالذات

باقی ہے کبھی فنا نہ ہو گا
 
ہے جس کو فنا خدا نہ ہو گا

جیسا چاہا جسے بنایا
 
کچھ اس سے کہے یہ کس کا پایا

مومن بھی اسی کا کھاتے ہیں رزق
 
کافر بھی وہیں سے پاتے ہیں رزق

شب دن کو کرے تو رات کو دن
 
جو ہم کو محال اُس کو ممکن

ایجاد وجود ہو عدم سے
 
حادِث ہو حُدُوْث یوں قِدم سے

اللہ تبارک و تعالیٰ
 
ہے دونوں جہان سے نرالا

قادر ہے ذوالجلال ہے وہ
 
آپ ہی اپنی مثال ہے وہ

ہر عیب سے پاک ذات اُس کی
 
ہر رَیب سے پاک بات اُس کی

شایاں ہے اُسی کو کبریائی
 
بے شک ہے وہ لائق خدائی

کس وقت نہاں ہیں اُس کے جلوے
 
ہرشے سے عیاں ہیں اُس کے جلوے

پروانہ چراغ پر مٹا کیوں
 
بلبل ہے گل کی مبتلا کیوں

قمری ہے اسیرِ سرو آزاد
 
یاں مہتاب سے ہے چکور دل شاد

شمع و گل و سَرو و ماہ کیا ہیں
 
کچھ اور ہی جلوے دل رُبا ہیں

عالم میں ہے ایک دُھوم دن رات
 
اے جلوۂ یار تیری کیا بات

گلزار میں عندلیب نالاں
 
پروانہ ہے بزم میں پُر افشاں

ہر دل کو تیری ہی جستجو ہے
 
ہر لب پہ تیری ہی گفتگو ہے

گفتار و تجسسِ دل و لب
 
پیارے یہ ترے ہی کام ہیں سب

تیری ہی یہ صنعتیں عیاں ہیں
 
ہم کس کو کہیں کہ ہم کہاں ہیں

تو نے ہی کھلائے ہیں یہ سب گل
 
ہے تیری ہی شان کا تجمل

تو نے ہی کیے جمیل پیدا
 
تو نے ہی کیا دلوں کو شیدا

وسائلِ بخشش

#ذوقنعتحسنرضابریلوی

    40
    0