واہ کیا خوب رضا ہم پہ اجالا تیرا

واہ کیا خوب رضا ہم پہ اجالا تیرا
 
بدرِ کامل سے لرزتا نہیں تارا تیرا

وجہِ تجدیدِ محبت ہے تڑپنا تیرا
 
صبحِ صادق کی نمو رات سے لڑنا تیرا

اُلفتِ آلِ محمدﷺ ہے خزینہ تیرا
 
حُبِ اصحاب پیمبر ہے وظیفہ تیرا

عشقِ سرکار میں کس جا نہیں شہرہ تیرا
 
یہ زمیں کیا ہے فلک چاہنے والا تیرا

مسلکِ عشق کا ہے روشنی بردار تو ہی
 
پھر مقیّد نہ رہے کیوں یہ زمانہ تیرا

تجھ سے حاصل ہوئے دستورِ حیاء کے موتی
 
میری طلعت کی حقیقت ہے چمکنا تیرا

تیرے دربارِ گہربار کی رونق ہے عجب
 
یہاں خورشید نظر آتا ہے ذرّہ تیرا

اس چمک والے نے رنگت تجھے ایسی بخشی
 
راستہ صاف دکھا دیتا ہے سایہ تیرا

تیری آمد سے ہے کافور شبِ تیر کا غم
 
دور حاضر کا تو سورج ہے اجالا تیرا

چڑھتے سورج کو تو ڈھلتے ہوئے دیکھا سب نے
 
روز بڑھتا ہے دل افروز اجالا تیرا

تجھ سے منسوب ہوئی جگ میں تمازت حق کی
 
شہر باطل کے لیے خوب شرارہ تیرا

دل ہے مغلوب تو ذہنوں نے جبیں سائی کی
 
کیسے پیاروں کو ہے پیارا درِ والا تیرا

چند پیمانوں میں ہی لوگ چھلک اٹھتے ہیں
 
زورِ میخانہ سے بھرتا نہیں کانسہ تیرا

کھل ہی جاتے ہیں سبھی رازِ محبت اس پر
 
پار لگتا ہے شہا ڈوبنے والا تیرا

علم نازاں ہے رضا قوتِ بازو پہ تیرے
 
شیر ڈرتا ہے بہت دیکھ کے پنجہ تیرا

نور دیتی ہے زمانے کو تری تحریریں
 
آج ہم دیکھ رہے ہیں سبھی دیکھا تیرا

تیرے اشعار تو لگتے ہیں مجھے الہامی
 
بحرِ ادراک بھی ہے محوِ تماشہ تیرا

سب نے تسلیم کیا رفعتِ علمی کو تیری
 
دل کے جُزدان میں رکھتے ہیں فتاویٰ تیرا

صدقہِ غوث، عطا علم کی خیرات مجھے
 
قصر عرفان پہ اُڑتا ہے پھریرا تیرا

ان کے منگتوں کی حضوری میں جھکے ہیں سرور
 
” نان پارہ“ نے یہی درس سکھایا تیرا

اے رضا حسنِ شب و روز بنادے مجھ کو
 
کیسے ممکن یہ نہیں، غوث ہے آقا تیرا

تیرے اوصافِ حمیدہ کی تو ہے کثرت پر
 
مجھ کو اندازِ محبت ہے نرالا تیرا

تیری سرکار سے اختر کا میں صدقہ چاہوں
 
جو میرا پیر ہے اور لاڈلہ بیٹا تیرا

اس کے اشکوں کے تبسم کی حفاظت فرما
 
سینکڑوں تاروں میں اک چاند ہے تنہا تیرا

بلبلِ باغِ رضا کا ہو چہکنا جیسے
 
اے سراجِ دلِ حسرت یہ دھڑکنا تیرا

از قلم: محمد سراج قادری (مالیگاؤں)

#منقبتاعلیحضرت

    320
    2