کچھ اس ادا سے تصوّر میں آپ آتے ہیں
کرم کے سائے میں ہم خود کو بھول جاتے ہیں
خیال آتا ہے جب بھی بہار طیبہ کا
گلِ امید مرے دِل میں مسکراتے ہیں
نبی کے حُسن ِ جہاں تاب کی ضیاء لے کر
فلک کے چاند ستارے بھی جگمگاتے ہیں
شفیع ِ حشر کی رحمت پہ جان و دل قرباں
خطائیں کرتےہیں ہم آپ بخشواتے ہیں
ظہور ہوتا ہے بیشک خدا کے جلوؤں کا
نقاب ِ رُخ جو حبیب خدا اٹھاتے ہیں
فرشتے آ کے لٹاتے ہیں پھول رحمت کے
نبی کی یاد میں محفل جو ہم سجاتے ہیں
ہے تری یاد بھی رحمت خیال بھی رحمت
ترے خیال میں ہر غم کو بھول جاتے ہیں
پکارتے ہیں مصیبت میں جب انہیں خاؔلد
انہیں قریب بہت ہی قریب پاتے ہیں