کرتا ہے کوئی آپ سے فریاد ، نبی جی ہوتا نہیں دل ،رنج سے آزاد ، نبی جی
جو دیکھناچاہوں ، وہ دکھائی نہیں دیتا دنیا ہے مری آنکھ کی ، برباد نبی جی
جو مرحلہ در پیش ہے وہ طے نہیں ہوتا ہر ایک قدم ہے ، نیء افتاد نبی جی
اک خوف ہے جو جاں کو رہائی نہیں دیتا اب ختم ہو ، اس قید کی میعاد نبی جی
میں اور مرے ماں ، باپ مٹیں آپ کی خاطر ہو آپ پہ قرباں ، مری اولاد ، نبی جی
اعزاز ، مرا ہے ، تو فقط آپ سے نسبت بیکار ہیں باقی سبھی اسناد نبی جی
اک حسرت ِ تعمیر سسکتی ہے تہ ِ دست مجھ کو بھی عطا کیجئے، بنیاد نبی جی
اک روز تو میں ،حاضر ِ خدمت بھی ہوا تھا رو رو کے سنائی تھی یہ روداد نبی جی
میں اپنے ہی پیروں پہ کھڑا ہو نہیں سکتا امداد ہو ، امداد ہو ، امداد ، نبی جی
محمد سلیم طاہر