چارہ گر ہے دل تو گھائل عشق کی تلوار کا
- Naat Academy
- Sep 6, 2021
- 3 min read
چارہ گر ہے دل تو گھائل عشق کی تلوار کا کیا کروں میں لے کے پھاہا مرہم زنگار کا
روکش خلد بریں ہے دیکھ کوچہ یار کا حیف بلبل اب اگر لے نام تو گلزار کا
حسن کے بے پردگی پردہ ہے آنکھوں کے لئے خود تجلی آپ ہی پردہ ہے روئے یار کا
حسن تو بے پردہ ہے پردہ ہے اپنی آنکھ پر دل کی آنکھوں سے نہیں ہے پردہ روئے یار کا
اک جھلک کا دیکھنا آنکھوں سے گو ممکن نہیں پھر بھی عالم دل سے طالب ہے ترے دیدار کا
تیرے باغ حسن کی رونق کا کیا عالم کہوں آفتاب اک زرد پتا ہے ترے گلزار کا
کب چمکتا یہ ہلال آسماں ہر ماہ یوں جو نہ ہوتا اس پہ پر تو ابروئے سرکار کا
جاگ اٹھی سوئی قسمت اور چمک اٹھا نصیب جب تصور میں سمایا روئے انور یار کا
حسرت دیدار میں اور آنکھیں بہہ چلیں تو ہی والی ہے خدایا دیدۂ خوں بار کا
بھیک اپنے مرہم دیدار کی کردو عطا چاہئے کچھ منہ بھی کرنا زخم دامن دار کا
کام نشتر کا کیا ناصح نصیحت نے تری چیر ڈالا اور دامن زخم دامن دار کا
یوں ہی کچھ اچھا مداوا اس کا ہوگا بخیہ گر چاک کر ڈالوں گریباں زخم دامن دار کا
از سر بالین من بر خیزا اے ناداں طبیب ہوچکا تجھ سے مداوا عشق کے بیمار کا
فتنے جو اٹھے مٹا ڈالے روش نے آپ کی کیوں نہ ہو دشمن بھی قائل خوبی رفتار کا
چوکڑی بھولا براق باد پا یہ دیکھ کر ہے قدم دوش صبا پر اس سبک رفتار کا
کوئی دم کی دیر ہے آتے ہیں دم کی دیر ہے اب چمکتا ہے مقدر طالب دیدار کا
جب گرا میں بیخودی میں ان کے قدموں پر گرا کام تو میں نے کیا اچھے بھلے ہشیار کا
آبلہ پا چل رہا ہے بیخودی میں سر کے بل کام دیوانہ بھی کرتا ہے کبھی ہشیار
آبلوں کے سب کٹورے آہ خالی ہوگئے منہ ابھی تر بھی نہ ہونے پایا تھا ہر خار کا
آبلے کم مائیگی پر اپنی روئیں رات دن سوکھ کر کانٹا ہوا دیکھیں بدن ہر خار کا
وا اسی برتے پہ تھا یہ تتا پانی واہ واہ پیاس کیا بجھتی دہن بھی تر نہیں ہر خار کا
پاؤں میں چبھتے تھے پہلے اب تو دل میں چبھتے ہیں یاد آتا ہے مجھے رہ رہ کے چبھنا خار کا
پاؤں کیا میں دل میں رکھ لوں پاؤں جو طیبہ کے خار مجھ سے شوریدہ کو کیا کھٹکا ہو نوک خار کا
راہ پر کانٹے بچھے ہیں کانٹوں پر چلنی ہے راہ ہر قدم ہے دل میں کھٹکا اس رہ پر خار کا
خار گل سے دہر میں کوئی چمن خالی نہیں یہ مدینہ ہے کہ ہے گلشن گل بے خار کا
گل ہو صحرا میں تو بلبل کے لئے صحرا چمن گل نہ ہو گلشن میں تو گلشن ہے اک بن خار کا
گل سے مطلب ہے جہاں ہو عند لیب زار کو گل نہ ہو تو کیا کرے بلبل کہو گلزار کا
پھر سے ہوجائے نہ عالم میں کہیں طوفان نوح لو ابلتا ہے سمندر اپنی چشم زار کا
دھجیاں ہوجائے دامن فرد عصیاں کامری ہاتھ آجائے جو گوشہ دامن دلدار کا
کوثر و تسنیم سے دل کی لگی بجھ جائے گی میں تو پیاسا ہوں کسی کے شربت دیدار کا
آئینۂ خانہ میں ان کے تجھ سے صدہا مہر ہیں مہر کس منہ سے کیا ہے حوصلہ دیدار کا
جلوہ گاہ خاص کا عالم بتائے کوئی کیا مہر عالم تاب ہے ذرہ حریم یار کا
ہفت کشور ہی نہیں چودہ طبق روشن کئے عرش و کرسی لامکاں پر بھی ہے جلوہ یار کا
زرد رو کیوں ہوگیا خورشید تاباں سچ بتا دیکھ پایا جلوہ کیا اس مطلع انوار کا
ہفت کشور ہی نہیں چودہ طبق زیرِ نگیں عرش و کرسی لامکاں کس کامرے سرکار کا
یہ مہ و خوریہ ستار چرخ کے فانوس ہیں شمع روشن میں ہے جلوہ ترے رخسار کا
مرقد نورؔی پہ روشن ہے یہ لعل شب چراغ یا چمکتا ہے ستارہ آپ کی پیزار کا
سامانِ بخشش