نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیالِ رحمت تھپک رہا ہے کہ آج رُک رُک کے خونِ دل کچھ مری مژہ سے ٹپک رہا ہے
لیا نہ ہو جس نے اُن کا صدقہ ملا نہ ہو جس کو اُن کا باڑا نہ کوئی ایسا بشر ہے باقی نہ کوئی ایسا ملک رہا ہے
کیا ہے حق نے کریم تم کو اِدھر بھی للہ نگاہ کر لو کہ دیر سے بینوا تمہارا تمہارے ہاتھوں کو تک رہا ہے
ہے کس کے گیسوے مشک بو کی شمیم عنبر فشانیوں پر کہ جاے نغمہ صفیر بلبل سے مشکِ اَذفر ٹپک رہا ہے
یہ کس کے رُوے نکو کے جلوے زمانے کو کر رہے ہیں روشن یہ کس کے گیسوے مشک بو سے مشامِ عالم مہک رہا ہے
حسنؔ عجب کیا جو اُن کے رنگِ ملیح کی تہ ہے پیرہن پر کہ َرنگ پُر نور مہر گردوں کئی فلک سے چمک رہا ہے
ذوقِ نعت