ڈاکٹرمحمدحسین مُشاہدؔ رضوی
نعت و ہ مقدس و محترم، مکرم و محتشم اور پاکیزہ لفظ ہے جو اپنی اشاعتِ آفرینش سے ہی رسولِ رحمتﷺ کی توصیف و ثنا اور شمائل و خصائل کے اظہار و اشتہار کے لیے مختص و مستعمل ہے۔ نعت منشائے قرآن ہے۔ نعت تقاضائے ایمان ہے۔ نعت قلب و نظر کے لیے نور ہے۔ نعت روح و جگر کے لیے سرور ہے۔ نعت حریمِ جاناں میں اذانِ شوق ہے۔ نعت آبروئے فن اور معراجِ ذوق ہے۔ نعت ہر زبان کے شعر و ادب کی بلا شبہ عزت و آبروٗ اور عصمت و عفت ہے۔
برِ صغیر ہند و پاک میں فروغِ نعت کے تعلق سے اعلا حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی محدثِ بریلوی اور ان کے تلامذہ، خلفا، مریدین، متوسلین اور معتقدین کا بہت بڑا حصہ ہے، امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے دربارِ فیض بار کے صحبت یافتگان اور خوشہ چینوں میں ہر کوئی علم و فضل، زہد و تقوا، استقامت علیٰ الدین اور عشق و محبتِ رسول ﷺ میں اپنی مثال آپ تھا۔ ہر ایک نے امام احمد رضا کے پیغامِ عشقِ رسالت کو اکنافِ عالم میں عام کرنے کے لیے ہر ممکن قربانیاں پیش کیں۔ عشقِ رسالت مآب ﷺ کے فروغ و اشاعت کے لیے ان پاک باز افراد نے نعتیہ شاعری کو بھی اپنا شیوہ بنایا اور نعتیہ نغمات کی مشک بار خوش بُو سے اہل ایمان و اسلام کی مُشامِ جان و ایمان کو معطر و معنبر کیا۔ امام احمد رضا کے دامنِ کرم سے وابستہ حضرات نے نعتیہ شعرو ادب کے حوالے سے اردو ادب کی وہ گراں قدر خدمت انجام دی ہے کہ ’’دبستانِ دہلی ‘‘ اور ’’دبستانِ لکھنؤ‘‘ کی طرح آپ کے معتقدین کی ملکوتی اور کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی پاکیزہ شعری کائنات کو بلا شبہہ ’’دبستانِ بریلی‘‘ کے نام سے معنون کیا جا سکتا ہے۔
’’دبستانِ بریلی‘‘ کے اکثر و بیشتر شعرائے کرام صاحبِ دیوان شاعر ہیں۔ ہر ایک کا کلام اندازِ بیان کے لحاظ سے نہایت اعلا، شگفتہ و شیریں، شعری و فنی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ، عشق و محبتِ رسول ﷺ کی تڑپ و کسک اور سوز و گداز لیے ہوئے ہے۔
نعتیہ شاعری جو کہ تلوار کی تیز ترین دھار پر چلنے کے متراد ف ہے اس میں اگر حد سے تجاوز کرتا ہے تو الوہیت کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور اگر کمی کرتا ہے تو شانِ رسالت میں تنقیص و گستاخی کا مرتکب قرار پا کر ایمان و اسلام کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس خصوص میں امام احمد رضا محدثِ بریلوی اور ان کے پروردہ افراد کا کلام سب سے منفرد، سب سے اعلا، جملہ شرعی خامیوں اور لغزشوں سے پاک و صاف، افراط و تفریط، خیالات کی بے راہ روی اور تصنع و بناوٹ سے مبرہ و منزہ ہے۔ یہی و ہ انفرادی خوبی و خصوصیت ہے جس نے ’’دبستانِ بریلی‘‘ کے شعرائے کرام کو دیگر نعت گو شعرا سے ممتاز ترین کر دیا۔
اس سچائی اور حقیقت کا جلوہ پیشِ نظر نعتیہ دیوان ’’قبالۂ بخشش ‘‘ کے ورق ورق میں مسطور اور سطر سطر میں پنہاں ہے۔ مداح الحبیب علامہ جمیل الرحمن جمیلؔ قادری رضوی بریلوی، امام احمد رضا کی بابرکت اور فیض بخش صحبت کے خوشہ چیٖن اوراستاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی (برادرِ اعلا حضرت)کے تلمیذِ ارشد تھے یہی وجہ ہے کہ علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کے نعتیہ دیوان’’ قبالۂ بخشش‘‘ میں جا بجا انہی حضرات کے کلامِ بلاغت نظام کا عکسِ جمیل نظر آتا ہے نیز آپ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قبالہ ٔ بخشش‘‘…’’حدائقِ بخشش‘‘ اور ’’ذوقِ نعت‘‘ کے اشعارِ آب دار کا آسان اور سہل زبان میں شارح و ترجمان ہے۔ چند مثالیں خاطر نشین کریں ؎
مالک تجھے بنایا مخلوق کا خدا نے
اس واسطے لکھا ہے ہر شَے پہ نام تیرا
عجب نکہتِ جاں فزا ہے تمہاری
کوئی راہ بھٹکا نہ جُویا تمہارا
اسی سے ہوئے عنبر و مشک مشتق
ہے خوشبو کا مصدر پسینا تمہارا
رفعنا کا رکھا ہے تاج سر پر حق تعالیٰ نے
پھریرا عرشِ اعظم پر اڑا کس کا محمّد کا
دل کہتا ہے ہر وقت صفت ان کی لکھا کر
کہتی ہے زباں نعت محمّد کی پڑھا کر
بھول جائے باغ و گل کو چھوڑ دے سیرِ چمن
عندلیبِ زار دیکھے گر بیابانِ رسول
علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کا کلام سوز و گداز، کیف و جذب اور رسول اللہ ﷺ کی محبت و الفت اور تعظیم و توقیر کی بادۂ ناب سے لوگوں کو مخمور و سرشار کرتا ہے۔ آپ کا کلام صنائع معنوی، صنائع لفظی، ایجاز و اختصار، ترکیب سازی، شاعرانہ پیکر تراشی، جدّتِ ادا اور طرزِ بیان کے علاوہ بہت ساری شعری و فنی خوبیوں کا اعلا ترین مرقع و نمونہ ہے ؎
خدا کے پیارے نبی ہمارے روف بھی ہیں رحیم بھی ہیں
شفیع بھی ہیں رسول بھی ہیں مطاع بھی ہیں قسیم بھی ہیں
مظہرِ ذاتِ خدا محبوبِ ربِّ دوسرا
بادشاہِ ہفت کشور رحمۃ للعالمیں
ہر ذرّہ میں ہے نورِ تجلائے مدینہ
ہے مخزنِ اسرار سراپائے مدینہ
آئینہ منفعل ترے جلوے کے سامنے
ساجد ہیں مہر و مہ ترے تلوے کے سامنے
محبت اس کو کہتے ہیں کہ مولائے ولایت نے
نمازِ عصر آرامِ محمد پر فدا کی ہے
جا کے صبا تو کوے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
لا کے سنگھا خوش بوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
چاک ہے ہجرسے اپنا سینہ، دل میں بسا ہے شہرِ مدینہ
چشم لگی ہے سوے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
پُروئے جاتے ہیں مژگاں میں وقتِ ذکرِ نبی
بھرے ہیں درِّ عدن آب دار آنکھوں میں
زمینِ طیبہ نہ کیوں آسماں سے اونچی ہو
بنایا اس نے نبی کا مزار آنکھوں میں
آج عالمِ اسلام میں جہاں امام احمد رضا محدثِ بریلوی، علامہ حسن رضا بریلوی اور مفتیِ اعظم علامہ شاہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی قدس سرہما کے نعتیہ کلام کی دھوم مچی ہوئی ہے، وہیں علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کا کلام بھی نعت خوانی کی بابرکت محافل و مجالس میں خوش الحانی کے ساتھ نہایت ذوق و شوق اور محبت و الفت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے ان نفوسِ قدسیہ کی نعتیں پڑھنے اور سننے میں ایک عجیب طرح کا لطف و سرور حاصل ہوتا ہے، طبیعت پر وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے، دلوں کو نور اور محبتِ رسول ﷺ کا ادراک ہوتا ہے ؎
یہ وہ محفل ہے جس میں احمدِ مختار آتے ہیں
ملائک لے کے رحمت کے یہاں انوار آتے ہیں
چلو ہے میزبانی جوش پر سرکارِ طیبہ کی
لیے رحمت کے خوانوں میں ملَک انوار آتے ہیں
وہ حسن ہے اے سیدِ ابرار تمہارا
اللہ بھی ہے طالبِ دیدار تمہارا
شاہِ کونین جلوہ نما ہو گیا
رنگ عالم کا بالکل نیا ہو گیا
منتخب آپ کی ذاتِ والا ہوئی
نامِ پاک آپ کا مصطفی ہو گیا
ایسی نافذ تمہاری حکومت ہوئی
تم نے جس وقت جو کچھ کہا ہو گیا
عاشقو ورد کرو صلِ علیٰ آج کی رات
میں پڑھوں شاہ کی کچھ مدح و ثنا آج کی رات
پردہ رُخِ انور سے جو اُٹّھا شبِ معراج
جنت کا ہوا رنگ دوبالا شبِ معراج
علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کے بعض نعتیہ اشعار تو بے حد مشہور اور زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ حتیٰ کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ نعت خواں حضرات بھی آپ کے نعتیہ نغمات کو پڑھتے رہتے ہیں ؎
آنکھوں کا تارا نامِ محمد ﷺ
دل کا اجالا نامِ محمد ﷺ
سلطانِ جہاں محبوبِ خدا تری شان و شوکت کیا کہنا
ہر شَے پہ لکھا ہے نام ترا ترے ذکر کی رفعت کیا کہنا
یارسول اللہ آ کر دیکھ لو
یا مدینے میں بلا کر دیکھ لو
کُشتۂ دیدار زندہ ہو ابھی
جانِ عیسیٰ لب ہِلا کر دیکھ لو
میری آنکھوں میں تمہی ہو جلوہ گر
چلمنِ مژگاں اُٹھا کر دیکھ لو
نبی آج پیدا ہوا چاہتا ہے
یہ کعبہ گھر اس کا ہوا چاہتا ہے
علامہ جمیل کا یہ سلام تو مقبولِ خاص و عام ہے ؎
اے شہنشاہِ مدینہ الصلوٰۃ والسلام
زینتِ عرشِ معلا الصلوٰۃ والسلام
ربِّ ہب لی اُمّتی کہتے ہوئے پیدا ہوئے
حق نے فرمایا کہ بخشا الصلوٰۃ والسلام
بُت شکن آیا یہ کہہ کر سر کے بل بُت گر پڑے
جھوم کر کہتا تھا کعبا الصلوٰۃ والسلام
اور اس سلام کا مقطع اس قدر مشہور و معروف ہے کہ اسے ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ شاید ہی کوئی صحیح العقیدہ مسلمان ایسا ہو گا جسے یہ شعر یاد نہ ہو ؎
میں وہ سُنّی ہوں جمیلِؔ قادری مرنے کے بعد
میرا لاشہ بھی کہے گا الصلوٰۃ والسلام
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی عاشقِ رسول امام احمد رضا بریلوی اور استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کی آغوشِ تربیت کے پروردہ ہیں۔ حتیٰ کہ آپ کا مشہورِ زمانہ لقب ’’مدّاح الحبیب‘‘ امام احمد رضا بریلوی کا ہی عنایت فرمودہ ہے جس کا ذکر علامہ جمیلؔ ایک مقام پر اس طرح کیا ہے ؎
کر دیا تیرا لقب مرشد نے مدّاح الحبیب
کر جمیلِؔ قادری مدحت رسول اللہ کی
لہٰذا اس بات پر علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کو بڑا ناز و تمکنت ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ انھیں نفوسِ قدسیہ کے فیضانِ روحانی سے آپ کو چار دانگِ عالم میں شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ چناں چہ آپ نے ان دونوں حضرات کا ذکر اپنے کلام میں بہ جا کیا ہے ؎
شہرت ہے جمیلؔ اتنی تیری یہ سب ہے کرامت مرشد کی
کہتے ہیں تجھے مدّاحِ نبی سب اہلِ سنت کہا کہنا
دکھا دے فیضِ استاذِ حسنؔ حضّارِ محفل کو
جمیلِؔ قادری پھر ہو بیاں پُر لطف مدحت کا
جمیلؔ اپنے آقا کا مدحت سرا ہے
کرم ہے رضاؔ کی نگاہِ کرم کا
رضا کے ہاتھ سے پی ہے جمیلؔ نے وہ مَے
کہ جس کا روز بڑھے گا خمار آنکھوں میں
قبالۂ بخشش میں شامل نعتیہ کلام زیادہ تر غزل کے فارم میں ہے، دیگر اصناف جیسے مخمس(ترجیع بند) میں اور رباعی میں بھی آپ نے نعتیں قلم بند فرمائی ہیں۔ علاوہ ازیں میلاد نامے، سلام، مناقب، قصائد اور قطعات بھی ملتے ہیں۔ حضرت سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی شان میں کئی مناقب موجود ہیں جو فنی اعتبار سے بلند ہونے کے ساتھ حضرت غوثیت مآب رضی اللہ عنہ سے علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کی بے پناہ الفت و عقیدت کی مظہر ہیں۔ نیز اپنے مرشدِ گرامی امام احمد رضا کی شان میں کئی قصائد بھی آپ نے ارقام کیے ہیں اس میں بھی محبت و خلوص کا دریا لہریں لے رہا ہے۔ ذیل میں بطورِ مثال اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
خدا کے فضل سے ہم پر ہے سایا غوثِ اعظم کا
ہمیں دونوں جہاں میں ہے سہارا غوثِ اعظم کا
ہماری لاج کس کے ہاتھ ہے بغداد والے کے
مصیبت ٹال دینا کام کس کا غوثِ اعظم کا
نبی کے معجزوں کا تو ہے مظہر
بتاتے ہیں ترے آثار یا غوث
ان اشعار کے علاوہ ذیل کی منقبت جمیلؔ صاحب کی جملہ مناقب میں اسلوبِ بیان اور طرزِ اظہار کے اعتبار سے بھی بلند و بالا ہے اور مضمون آفرینی، سوزو گداز، رقت و کسک اور کرب و درد کا ایسا والہانہ آہنگ پایا جاتا ہے کہ قاری و سامع دونوں کی آنکھیں اس منقبت کی قراء ت کے دورا ن بے اختیار اشک با ر ہو جاتی ہیں۔ چند اشعار خاطر نشین ہوں ؎
جان و دل سے تم پہ میری جان قرباں غوثِ پاک
ہے سلامت تم سے میرا دین و ایماں غوثِ پاک
کب بلائیں اپنے در پر، کب رُخِ انور دکھائیں
کب نکالیں دیکھو میرے دل کا ارماں غوثِ پاک
آپ کا نامِ مقدس میرے دل پر نقش ہے
میری بخشش کے لیے کافی ہے ساماں غوثِ پاک
میری آنکھیں تیرا گنبد تیری چوکھٹ میرا سر
میرا لاشہ اور ہو تیرا بیاباں غوثِ پاک
ماہِ ربیع الآخر ۱۳۳۵ھ میں فتحِ مقدمۂ بدایوں کے موقع پر علامہ جمیل نے اپنے مرشدِ گرامی امام احمد رضا بریلوی کی شان میں جو قصائد لکھے وہ عقیدت و محبت کے مظہرِ جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ شعریت اور فنی اعتبار سے بھی ارفع و اعلا ہیں، چند اشعار بطورِ مثال ذیل میں خاطر نشان فرمائیں ؎
آبروئے مومناں احمد رضا خاں قادری
رہِ نمائے گم رہاں احمد رضا خاں قادری
خاندانِ پاکِ برکاتیّہ کا چشم و چراغ
کہتے تھے نوری میاں احمد رضا خاں قادری
طبیعت آج کیوں ایسی رسا ہے
کہ خود اپنی زباں پر مرحبا ہے
صبا کیوں اس قدر اِترا رہی ہے
چمن میں کون سا غنچا کھلا ہے
یہ کیسے شادیانے بج رہے ہیں
یہ کیوں بابِ مسرت آج وا ہے
تحیّر جب بڑھا ہاتف پکارا
رضائے قادری دولہا بنا ہے
بریلی کا نصیبہ جگمگایا
کہ عبدالمصطفیٰ دولہا بنا ہے
علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کا نعتیہ دیوان چند برسوں سے بالکل نایاب سا ہو گیا تھا۔ بہت عرصہ پہلے اسے رضا اسلامک مشن، بریلی شریف نے شائع کیا تھااس کے بعد کسی بھی ناشر نے اس کی اشاعت کی طرف توجہ نہ فرمائی۔ لہٰذا خوش عقیدہ مسلمانوں کے مابین اس کلام کی بے پناہ مقبولیت کے پیشِ نظر آل انڈیا سنّی جمعیۃ العلما شاخ مالیگاوں نے اسے جدید طرز پر، کمپیوٹر کمپوزنگ کے ذریعہ پاکٹ سائز میں منظرِ عام پر لایا ہے۔ یقینا یہ امر جملہ برادرانِ اہل سنت کے لیے فرحت و انبساط کا باعث ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ جمیل الرحمن بریلوی کی حیات و خدمات اور مکمل شعری سرمایوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کے شعری محاسن، رجحانات اور خیالات کو اجاگر کرنے کے لیے یونیورسٹی لیول کا کوئی تحقیقی مقالہ قلم بند کیا جائے تاکہ دیگر قد آور نعت گو شعرا میں آپ کے مقام و منصب کا تعین کیا جا سکے اور دنیائے ادب آپ کے شاعرانہ کمال سے کماحقہٗ واقف ہوسکے۔