شاہِ بطحا کی باتیں عرض نمودہ : محمد حسین مشاہدؔ رضوی
شفیعُ الامم ماہِ طیبہ کی باتیں کریں دم بدم شاہِ بطحا کی باتیں
جسے خَلق قرآن کہتی ہے ، وہ ہے اُسی خُلقِ خیرُ البَرایا کی باتیں
سِیہ بختیِ شب ہو پل میں منوّر جو چِھڑ جائیں اُس زُلفِ شاہا کی باتیں
رہے حجرۂ جاں تصور سے روشن لبوں پر ہوں روضۂ والا کی باتیں
رہے اُس کی یادوں سے شاداب ہستی کیے جائیں طیبہ و طابہ کی باتیں
اگر ہو تلاشِ سکون و مروّت پڑھیں سیرتِ پاکِ آقا کی باتیں
ہو مقصد مساواتِ انسانیت ، گر تو دیکھیں غریبوں کے ملجا کی باتیں
ثناے پیمبر وظیفہ ہو میرا بسیں روح میں وصفِ مولیٰ باتیں
مُشاہدؔ پہ ہو لطف کچھ ایسا یارب لکھے ہر گھڑی شاہِ بطحا کی باتیں