سید الشُہَداء سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ
نیکیاں کرنے والے اور مصیبتوں کو دور کرنے والے
جب سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید رنج وملال کااظہار فرمایا اور نہایت غمگین ہوگئے یہاں تک کہ آپ کی چشمان مقدس سے آنسو رواں ہوگئے اور جب حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہداء احدکی نماز جنازہ پڑھائی تو ہرشہید کی نمازجنازہ کے ساتھ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ بھی پڑھائی ، اس لحاظ سے آپ کو یہ اعزاز وامتیاز حاصل ہے کہ سترمرتبہ آپ کی نمازجنازہ ادا کی گئی‘ چنانچہ شرح مسند ابو حنیفہ،ذخائر عقبی اور سیرت حلبیہ میں روایت ہے:
وعن ابن شاذان من حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ : ما رأینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باکیا قط أشد من بکائہ علی حمزۃ رضی اللہ عنہ ، وضعہ فی القبلۃ ، ثم وقف علی جنازتہ ، وأنحب حتی نشغ، أی شہق ، حتی بلغ بہ لغشی من البکاء یقول : یا حمزۃ یا عم رسول اللہ وأسد رسولہ : یا حمزۃ یا فاعل الخیرات ، یا حمزۃ یا کاشف الکرب ، یا حمزۃ یا ذاب عن وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وکان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم إذا صلی علی جنازۃ ، کبر علیہا أربعا.وکبر علی حمزۃ سبعین تکبیرۃ ، رواہ البغوی فی معجمہ.
ترجمہ:حضرت ابن شاذان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ ہم نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کبھی اتنا اشک بار نہیں دیکھا جتنا کہ آپ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اشک بار ہوئے،آپ نے انہیں قبلہ کی جانب رکھا ،پھرآپ جنازہ کے سامنے قیام فرماہوئے،آپ اس قدر اشک بار ہوئے کہ سسکیاں بھی لینے لگے ، قریب تھا کہ رنجیدگی کے سبب آپ پر بیہوشی طاری ہوجائے،آپ یہ فرماتے جاتے:اے حمزہ !اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا،اے رسول اکر م صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شیر!اے حمزہ ! اے نیکیوں کو انجام دینے والے!اے حمزہ ! اے مصیبتوں کو دور کرنے والے!اے حمزہ ! اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے دفاع کرنے والے،حضو ر صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب نماز جنازہ ادا فرماتے تو چار مرتبہ تکبیر فرماتے اور آپ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ستر(70) مرتبہ تکبیر کے ساتھ نمازِجنازہ ادا فرمائی۔امام بغوی نے اس روایت کو اپنی معجم میں نقل کیا ہے۔
( شرح مسند أبی حنیفۃ،ج1،ص526۔ ذخائر العقبی۔ ج 1 ، ص : 176۔ السیرۃ الحلبیۃ،ج4،ص153۔سمط النجوم العوالی فی أنباء الأوائل والتوالی، ج1، ص161۔ المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی۔)