زخم بھر جائیں گے سب چاک گریبانوں کے
سوئے طیبہ تو چلیں قافلے ارمانوں کے
جن کو سرکار پلاتے ہیں نظر سے اپنی
وہ تو محتاج نہیں دہر میں پیمانوں کے
روضۂِ پاک کے پُر کیف نظاروں کی قسم
رنگ پھیکے ہوئے فردوس کے ایوانوں کے
دینے والے ہیں اگرآپ تو کس بات کا غم
حوصلے بڑھتے رہیں گے مرے ارمانوں کے
سوزِ الفت غمِ سرکار متاعِ نسبت
سرو ساماں ہیں یہی بےسرو سامانوں کے
اس طرح آپ کے قدموں نے ضیا بار کیا
ذرّے فردوس ِ نظر بن گئے ویرانوں کے
ایک میں کیا مری جھولی میں ہے وسعت کتنی
تم نے دامن بھرے پھولوں سے بیابانوں کے
وہ تو وہ ان کے غلاموں کا ہے یہ حال کہ اب
رُخ بدل دیتے ہیں اک آن میں طوفانوں کے
آپ کی یاد کو اللہ سلامت رکھے
کام بگڑے ہوئے بن جاتے ہیں انسانوں کے
ہوگئی قلب کی تطہیر ملا کیف و سرور
دور جس وقت چلے نعت کے پیمانوں کے
غیر کا در کبھی دیکھا نہ کبھی دیکھیں گے
آپ جو پالنے والے ہوئے دیوانوں کے
چل پڑے شمع نبوت پہ فدا ہونے کو
حوصلے دیکھنا خاؔلد ذرا پروانوں کے