زباں پہ جب نامِ رحمتِ ذوالجلال آیا کمال آیا یہ سننے والے پکار اُٹھے کمال آیا کمال آیا
وہ جس کی دعوت پہ کہنے لبیک سر کے بل ہر زمانہ پہنچا وہ جس کی بیعت کو عبد ہر خوش خصال آیا کمال آیا
جہالتوں کے دلوں میں پیوست ہوتے جاتے تھے لفظ سارے کلام کرنے کو جب وہ شیریں مقال آیا کمال آیا
جو بحرِ ظلمت کی شب اندھیری سے ہو چکے تھے کہیں معطل وہ ضابطے میرا شاہ کرنے بحال آیا کمال آیا
صہیب و سلمان جس کے خُلقِ عظیم سے دینِ حق میں آئے اُسی کے اخلاق سے میسر بلال آیا کمال آیا
بروزِ محشر جب اُس کے دیدار کی جھلک دیکھی عالمیں نے یہ شور اُٹھا کہ پیکرِ ہر جمال آیا کمال آیا
حضور پھر سے بلائیے گا پھر اپنا جلوہ دکھائیے گا بوقتِ رُخصت زباں پہ جب یہ سوال آیا کمال آیا
غموں میں پھر حوصلہ کہاں تھا کہ مجھ کو مشکل میں ڈال دیتے مصیبتوں میں درود بن کر جو ڈھال آیا کمال آیا
میں اپنے روز و شبِ سیہ میں گزر رہا تھا کہ مجھ کو ازہر ثنائے سرکارِ دوجہاں کا خیال آیا کمال آیا
محمد اویس ازہر مدنی