خیال آتا ہے دل میں کہ گر ہوا ہوتا انہی کے دور میں میں نے جنم لیا ہوتا
میں چپکے چپکے انہیں دیکھتا رہا ہوتا نصیب والوں کا پھر میں بھی پیشوا ہوتا
کبھی سواری کی ان کی نکیل تھام کہ میں مدینے پاک کی گلیوں میں چل رہا ہوتا
وہ چلتے آگے میری شان دلربائی سے میں پیچھے ان کی سواری کے دوڑتا ہوتا
مجھے بھی ملتا شرف تلوے چوم لینے کا نبیء پاک کی پاپوش بن گیا ہوتا
میرے بھی سر پہ تسلی کا ہاتھ رکھتے وہ یتیم گر میں اسی دور پاک کا ہوتا
مجھے بھی ایسی نمازوں کا گر شرف ملتا میں ان کے روءے منور کو تک رہا ہوتا
وہ آکے میرے جنازے پہ جب کھڑے ہوتے کفن ہٹا کہ میں ان کو ہی تک رہا ہوتا
میرا بھی نام جب آتا زبان اقدس پر جو کوئے جاناں کا سگ میں بھی بن گیا ہوتا
وہ لے کے جاتے مجھے روز کاش صحرا میں حلیمہ دائی کی بکری ہی بن گیا ہوتا
امین خستہ کا اٹھتا جنازہ طیبہ میں مراد اپنی بےچارہ یہ پا گیا ہوتا
سید امین القادری ۔ مالیگاوں ۔ انڈیا