خاکِ مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا ہوتی رہِ مدینہ میرا غبار ہوتا
آقا اگر کرم سے طیبہ مجھے بُلاتے روضہ پہ صدقہ ہوتا ان پر نثار ہوتا
وہ بیکسوں کے آقا بے کس کو گر بُلاتے کیوں سب کی ٹھکروں پرپڑ کر وہ خوار ہوتا
طیبہ میں گر میسّردو گز زمین ہوتی ان کے قریب بستا دل کو قرار ہوتا
مر مٹ کے خوب لگتی مٹی مرے ٹھکانے گر ان کی رہ گزر میں میرا مزار ہوتا
یہ آرزو ہے دل کی ہوتا وہ سبز گنبد اور میں غبار بن کر اس پر نثار ہوتا
بے چین دل کو اب تک سمجھا بجھا کے رکھا مگر اب تو اس سے آقا نہیں انتظار ہوتا
سالکؔ ہوئے ہم ان کے وہ بھی ہوئے ہمارے دل مضطرب کو لیکن نہیں اعتبار ہوتا