اُن کے روضے پہ بہاروں کی وہ زیبائی ہے جیسے فردوس پہ فردوس اُتر آئی ہے
پاؤں چھو جائے تو پتھر کا جگر موم کرے ہاتھ لگ جائے تو شرمندہ مسیحائی ہے
جانے کیوں عرش کی قندیل بجھی جاتی ہے ان کے جلووں میں نظر جب سے نہا آئی ہے
مل گئی ہے سرِ بالیں جو قدم کی آہٹ روح جاتی ہوئی شرما کے پلٹ آئی ہے
سر پہ سر کیوں نہ جھکیں ان کے قدم پہ ارؔشد اک غلامی ہے تو کونین کی آقائی ہے