اِسے بھی رفعتِ افلاک کا پتا ہوتا یہ سر اگر تری دہلیز پر جُھکا ہوتا
میں ہوتا گرد کا ذرہ فضائے طیبہ میں ہَوا جو چلتی، ترے در پہ آ گرا ہوتا
اگر میں ہوتا کوئی شاخ اُنﷺ کے گُلشن میں وہ ﷺ سامنے سے گزرتے، میں جُھومتا ہوتا
میں سنگ ہوتا مکینِ حرا ﷺ کی راہوں کا اور اُن ﷺ کے قدموں میں معراج پا گیا ہوتا
میں ہوتا کوئی چٹائی ابوایوب کے گھر حضور ﷺ آتے، میں اُن کے لیئے بِچھا ہوتا
اے کاش ہوتا میں چشمِ اویس کا آنسو اور اُن ﷺ کے ہجر میں سرشار بہہ گیا ہوتا
تمہاری گلیوں میں سُوکھا درخت ہوتا میں تمہاری دید سے سرسبز ہو گیا ہوتا
تمہارے دور میں یوں بے اماں نہ پِھرتا میں تمہارا در تو مرے واسطے کُھلا ہوتا
میں حرف ہوتا کسی ایسی نعت کا حسّاؔن کہ جِس کو سرورِ عالم ﷺ نے خود سُنا ہوتا
حسان المصطفى