اے ربّ نوا ڈال دے دامن میں نئی نعت معمورہ احساس کو مہکاتی ہوئی نعت
درکار ہے ٹھہرے ہوۓ جذبات کو مہمیز یہ کام جو کر پاۓ ہو اب ایسی کوئی نعت
کر دے جو قریں ذاتِ رسولِ دوسرا سے ہے میری نگاہوں میں وہی نعت بڑی نعت
جب ناقہ قُبا سے تھا مدینے کو روانہ اس منظرِ پاکیزه سےضو ریز رہی نعت
جلوے تھے جب اس نورِ مجسّم کے ہویدا اس عہدِ مقدّس کی ہے تصویر گری نعت
حجرے سے وہ سرکار کا مسجد میں نکلنا اس لمحے میں ہو کاش رچی اور بسی نعت
حنّانہ کو سرکار جو دیتے تھے تسلّی اس لطف سے آراستہ ہو جائے کوئ نعت
جب زید و بلال آتے تھے آقا کے جلو میں کچھ دیر تو اس وقت کو ٹھہراۓ کبھی نعت
تائب گلِ تقدیس کھلاتی ہی رہے گی گلزارِ وطن میں ہے نسیمِ سحری نعت
کلام: حفیظ تائب