حِصَارِ شَرع میں وہ لذّتیں پاؤں میں بندش کی جگہ دل میں نہ رہ جائے کسی نفسانی خواہش کی
مرے مولا ! میں اپنے نفسِ بد سے تنگ آیا ہوں ہلاکت ہی ہلاکت ہے نِہایت اُس کی کوشش کی
یقینًا میں ترے قہر و غضب سے بچ نہ پاؤں گا اگر تونے مرے اعمال کے بارے میں پُرسش کی
ترے رحم و کرم کی آس ہے اور کچھ نہیں مولا! نہ پوچھ اعمال،یونہی بھیک دیدے اپنی بخشش کی
کرم کر لاج رکھ لے میرے حُسنِ ظن کی یا اللہ! مری شرمندہ آنکھیں اِلتجا کرتی ہیں بخشش کی
تری رحمت بچاتی ہے نہیں تو نفس وشیطاں نے مٹانے کو مجھے کیا کیا نہیں تدبیر و سازش کی
اِدھر سے جُرم وعِصیاں ہے اُدھر سے رحمت واحساں مرے مولا ! میں قرباں حد نہیں تیری نوازش کی
ہمیشہ میرے اعمالِ سِیَہ پر ڈال کر پردہ سزاوارِ سزا پر رحمتوں کی تونے بارش کی
تری قدرت پہ نظریں ہیں حوادِث کے زمانے میں فلک کیا چیز ہے؟ کیاہےحقیقت اُس کی گردش کی؟
قدم اٹّھیں تو اب تیری رضا کے واسطے اٹّھیں پسِ پردہ بِنا تو ہو مری ہر ایک جُنبش کی
اِلٰہی! تو ہمیں اُن کی محبت میں فنا کردے بقا ہے جن کے دم سے اِس بِنائے آفرینِش کی
وہی ہوں قبلۂ مقصود دل کے ہر ارادے کا لِقائے یار منزل ہو مری ہر کدّ و کاوِش کی
جو طیبہ چھوڑ کر دنیا کے ویرانے میں کھوجائے ہوا ہم کو نہ لگنے دے کبھی اُس عقل ودانش کی
مرے دل سے نکل جائے جنازہ خود پسندی کا طلب ہے “مخلصانہ طور پر تیری پرستِش کی”
مرے دل کا سِیَہ خانہ ، بنے پُر نور کاشانہ جھلک تھوڑی سی مل جائےترےجلووں کی تابش کی
کبھی مستی میں نعتِ مصطفائی لب پہ آتی ہو کبھی حسرت نکلتی ہو تری حمد وسِتائش کی
عبیدالقادری کو خیر کی توفیق دے یا رب! نہ ہوں نذرِ گنہ مولا ! یہ گھڑیاں آزمائش کی
(جزى الله عنا حبيبنا محمدا ماهو أهله وصلى عليه وعلى آله وصحبه وبارك وسلم)
من العبدالعاجز : محمدمشاہدرضا عبیدالقادری